امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے معاملے میں بھارت کے موقف کو ’قدرےمتزلزل ‘قرار دیا ہے۔ امریکی صدر پیر کے روز ایک کاروباری فورم سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے چین کے مقابلے میں بننے والے چار ملکوں کے غیر رسمی اتحاد ’کواڈ‘کے اراکین کی روسی جارحیت کے جواب میں حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس اتحاد کے سب ہی اراکین نے سخت اقدامات اٹھائے سوائے بھارت کے جس کا رد عمل قدرے متزلزل رہا ہے۔
جہاں کواڈ کے دیگر اراکین نے روس پر پابندیاں عائد کی ہیں، وہیں بھارت اس کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو جاری رکھنے کے لیے مقامی کرنسیوں میں ادائیگیوں کا ایک نظام وضع کرنے پر غور کرہا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈین آئل کارپوریشن نے روس سےرعایتی نرخوں پر تین ملین بیرل خام تیل بھی خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔
بھارت نے اس جنگ کے حوالے سے اب تک غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہے۔اس نے اقوام متحدہ میں جنگ کی مذمتی قرارداد پر بھی ووٹ نہیں دیا۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ اور اس نے بھی اس جنگ میں خود کو غیر جانبدار رکھا ہے۔
واشنگٹن کے تحقیقی ادارے یونائیٹڈ انسٹیٹیوٹ آف پیس میں ایشیا سینٹر میں سینئر ماہر ڈاکٹر اسفند یار میر کہتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ در اصل امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان کے مطابق روس اگرچہ پہلے بھی ایک چیلنج تھا لیکن چین زیادہ بڑا خطرہ تھا جو ورلڈ آرڈر تبدیل کرنے کی سمت جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس تناظر میں یوکرین کی جنگ، امریکہ کی چین کو روکنے کی کوششوں کی راہ میں ایک رکاوٹ بن گئی ہے۔ اور اسے کافی مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ ایسے فیصلے جو اس توازن کو متاثرکر رہے ہیں جو وہ چین اور روس کے بارے میں اپنی پالیسی ترجیحات کےحوالے سے قائم رکھنا چاہتا تھا۔
اسنفدیار میر کے مطابق یہاں پر بھارت کا رول سامنے آتا ہے جسے امریکہ نے اپنی انڈو پیسفک اسٹریٹیجی میں ایک اہم حلیف کی حیثیت دی ہے۔
دوسری جانب امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان بھارت جتنا بڑا اور اہم عنصر نہیں۔ اور خاص طور سے افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کی حیثیت مختلف ہو گئی ہے ۔لیکن اسفندیار میر کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ روس کے معاملے میں دباؤ صرف پاکستان پر ہے۔
مارچ کے آغاز میں بائیس ٰیورپی ملکوں کے سفیروں نے ایک خط میں پاکستان سے مطالبہ کیا کہ تھا کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے پہ روس کی کھل کرمذمت کرے اور اس کےخلاف اقوامتحدہ میں قرار داد کی حمایت کرے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایک جلسے کے دوران اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
اسی طرح فروری کے اواخر میں یورپی ملکوں کے سفراء نے یوکرین کے سفیر کے ساتھ بھارت کی وزارت خارجہ جا کر یوکرین کی جنگ کے حوالے سے بھارتی موقف میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ اور کوشش کی کہ یو این جنرل اسمبلی میں بھارت کا ووٹ تبدیل کرا سکیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔
اسفندیار میر کہتے ہیں کہ دباؤ تو دونوں (پاکستان اور بھارت) پر ہے۔ تاہم دونوں کے ساتھ موقف میں تبدیلی کے مطالبے کا لب و لہجہ مختلف ہے۔انہوں نے کہا شاید پاکستان پر دباؤ کا احساس اس لیے زیادہ ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اپنی تقاریر میں بار بار اسکا ذ کر کررہے ہیں۔
اسفندیار میر کا کہنا تھا کہ اس سب کے باوجود پاکستان پر کسی قسم کی تعزیرات یا جوابی کارروائی کا معاملہ انکے خیال میں ابھی کہیں بھی زیر غور نہیں ہے۔
لیکن بھارت کے حوالے سے بقول انکے امریکہ میں دو طرح کی سوچ پائی جا تی ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ بھارت ہمارا قریبی اتحادی ہے اسے استثنی دیا جانا چاہیے۔ جبکہ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ بھارت چونکہ روس سے اسلحہ اور فوجی سازو سامان خریدتا ہے اس لیے اس پر وہ مخصوص پابندیاں لگائی جائیں جو 'کاٹسا ‘ کہلاتی ہیں۔ یعنیCountering America's Adversaries Through Sanctions چنانچہ اس وقت پاکستان سے زیادہ بھارت اس خطرے سے دو چار ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ بھارت کی جیو پولیٹکل صورت حال پاکستان کی نسبت بہت زیادہ اہم ہے اور امریکہ اور یورپی یونین کا بھارت کے ساتھ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ بقول اسفندیار میر ، اس وقت جو انڈو پیسفک سیکیورٹی فریم ورک ہے، جسکا کواڈ ایک حصہ ہے۔ اس میں بھارت کا مرکزی کردار ہے۔ اور اس کردار میں اس وقت بھارت کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ اور یوں بھارت اس وقت امریکہ اور یورپ کی ضرورت بن گیا ہے۔
اسفندیار میر کی نظر میں اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ممالک بھارت کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے پہلے پاکستان کی نسبت بہت زیادہ سوچنے پر مجبور ہونگے۔
اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر سے وابستہ عزیر یونس اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں پاکستان اور بھارت دونوں پر دباوء ہے کہ وہ روس کے معاملے پر مغرب کا ساتھ دیں مگر دونوں ملکوں کی بین لاقوامی تناظر میں پوزیشنوں کا فرق ہے
چونکہ بھارت ایسٹ ایشیا میں امریکہ کا ایک اہم اسٹریٹیجک اتحادی ہے، عزیر یونس کی نظر میں یہ ملک اسے ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔ اور اسکے لیے اسی طرح گنجائش نکالی جائے گی جس طرح ایران پر پابندیوں کے باوجود بعض صورتوں میں اس سے تیل خریدنے کے لیے استثنی دیا گیا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی صورت حال مختلف ہے۔ وہ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس لیتا ہے یعنی اسے یورپی ملکوں کے لیے پنی برآمدات میں ترجیح ملتی ہے۔ وہ قرضے وغیرہ عالمی مالیاتی اداروں سے لینے پر مجبور ہے۔ اس لیے اس پر دباؤ ڈالنا آسان ہے۔ بقول عزیر یونس، ’’جب آپ معاشی طور پر کمزور ہوں گے تو آپکو دبانا آسان ہو گا۔آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کے لیے معاشی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے۔‘‘
بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ روس اور یو کرین دونوں سے اچھے تعلقات کے سبب مصالحت کرانے میں بھارت کے کسی کردار کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
بھارتی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے سلسلے میں بھارت کا موقف ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی 1957 میں وضع کردہ غیر وابستگی کی پالیسی کے مطابق ہے۔ کہ بھارت کسی تنازع میں براہ راست مذمت یا کسی ایک فریق کی واضح حمایت کے بجائے تنازعات کے حل میں اپنے لیے کوئی کردار تلاش کرے گا۔