پاکستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بھارت سے دو طرفہ تجارت ختم کرنے کی جو پابندی عائد کی تھی اس میں ترمیم کر دی گئی ہے اور اب بھارت سے ادویات اور طبی آلات منگوانے کی اجازت ہو گی۔
پاکستان کی وزارت تجارت کی طرف سے اس ضمن میں دو ایس آر اوز جاری کیے گئے ہیں جس کے تحت امپورٹ پالیسی آرڈر 2016ء اور ایکسپورٹ پالیسی آرڈر 2016ء میں ترامیم کر دی گئی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد اب پاکستان پہلے کی طرح ادویات و طبی آلات بھارت درآمد اور برآمد کیے جا سکیں گے۔
وزارت تجارت کے حکام کے مطابق یہ اقدام انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دونوں ممالک کے عوام کو علاج کی سہولیات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں استعمال ہونے والی ادویات کا 50 فیصد خام مال بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے۔ کشمیر کی حمایت میں کیے جانے والے حالیہ اقدامات کے تناظر میں پاکستان نے بھارت سے آنے والے اور مختلف ادویات میں استعمال کیے جانے والے خام مال اور کیمیکلز کو بھی پاکستان میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
اس پابندی کے باعث پاکستان میں فارماسوٹیکل انڈسٹری کے مطابق زندگی بچانے والی بیشتر ادویات کی قیمتوں میں اضافے اور مارکیٹ میں اُن کی کمی کا خدشہ بڑھنے لگا تھا جس پر گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے وفد کے درمیان ملاقات میں فریقین نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور مسئلے کا جلد از جلد حل نکالنے کی ضرورت پر بھی اتفاق کیا تھا۔
پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کہنا ہے کہ یہ بات سچ ہے کہ پاکستان میں بنائی جانے والی ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کا تقریباً 50 فیصد حصہ بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے۔
اُس وقت 820 ایسے کیمیکلز ہیں جو پاکستان کی درآمدات کا حصہ ہیں کیونکہ پاکستان یہ کیمیکلز پاکستان میں تیار نہیں کیے جاتے اور صرف بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں۔
اُن میں 60 سے زائد ایسے کیمکیلز ہیں جن کے لیے پاکستان بھارت پر زیادہ انحصار کرتا ہے جب کہ 23 کیمیکلز زندگی بچانے والی ادویات میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ادویات دل کے امراض، ذیابیطس، بلڈ پریشر، ٹی بی اور کینسر جیسی بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ٹی بی کی ادویات میں استعمال ہونے والا کیمیکل ’ایتھمبیوٹول‘ کا پاکستان کے لیے فراہمی کا واحد ذریعہ بھارت ہے۔
پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا اور بتایا جاتا ہے کہ نو سے تیس فیصد تک ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہی ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول نہ پانے جیسے معاملات کی وجہ سے وفاقی وزیر عامر کیانی کو بھی وزارت سے ہٹا دیا گیا تھا۔
پاکستان نے یہ فیصلہ ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کیا ہے کیونکہ فارما انڈسٹری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اگر بھارت کی بجائے کسی دوسرے ملک سے خام مال منگوایا گیا تو لاگت میں اضافہ ہو گا جو صارفین کو ادویات کی زیادہ قیمت کی صورت میں ادا کرنا ہو گا۔