مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کو معاشرے میں برابر کا شہری سمجھنے اور انھیں ان کا جائز مقام دینے کے لیے رویوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اتوار کو قدرتی آفات اور حادثات سے بچاؤ کا عالمی دن ’’ہنگامی حالات میں معذور افراد کے تحفظ‘‘ کے عنوان سے منایا گیا۔
اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا دس فیصد کسی نہ کسی صورت میں معذوری کا شکار ہے اور عالمی تنظیم کے مطابق ایسے افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں سیلاب اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات کا تواتر سے سامنا رہا ہے جن میں جانی نقصانات کے علاوہ بہت سے لوگ کسی نہ کسی معذوری کا بھی شکار ہوتے رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اس دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ان کی حکومت ناگہانی حالات میں معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت سمجھتی ہے کہ معذور افراد ملک کی پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کے بقول ہنگامی حالات سے نمٹنے کی پالیسیاں تیار کرتے وقت ان افراد کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کو معاشرے میں برابر کا شہری سمجھنے اور انھیں ان کا جائز مقام دینے کے لیے رویوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان ڈس ایبلڈ فاؤنڈیشن کے چیئرمین شاہد احمد میمن کا کہنا ہے کہ آفات میں متاثر ہونے والے معذور افراد کی اگر بروقت امداد اور بحالی پر توجہ نہ دی جائے تو یہ لوگ معذوری کے ساتھ ساتھ نفسیاتی الجھنوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے لیے مزید تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
’’سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ جو ہمارے ہاں لوگوں کو معلومات حاصل ہیں اس معلومات کو عملی جامہ پہنانے کی تربیت نہیں ہے۔ معلومات تو ہوتی ہیں لیکن کسی ہنگامی صورتحال میں فوراً کیا اقدامات کرنا ہیں اس کی عملی تربیت نہیں ہوتی۔۔۔اخلاقی، ذہنی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے قائم اداروں کے عہدیدار اور منتظمین میں بھی اس تربیت کا فقدان ہے کہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کس طرح زیادہ مستعدی سے کام کریں۔
شاہد میمن نے کہا کہ معذوروں کی مدد اور بحالی کے لیے ادارے تو موجود ہیں لیکن ان کے درمیان رابطوں اور تعاون کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
’’بہت سے ملازم پیشہ لوگ کسی معذوری کا شکار ہونے کے بعد ملازمت چھوڑ دیتے ہیں یا ان کی وہ نوکری برقرار نہیں رہتی تو انھیں مشورہ دیا جائے کہ وہ کس طرح سے اپنی اس معذوری کے ساتھ ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے کر معقول انداز میں معذور افراد کو مشورے اور رہنمائی فراہم کرکے ان افراد کو پھر سے معاشرے کا فعال شہری بنانے میں بہت حد تک مدد مل سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا دس فیصد کسی نہ کسی صورت میں معذوری کا شکار ہے اور عالمی تنظیم کے مطابق ایسے افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں سیلاب اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات کا تواتر سے سامنا رہا ہے جن میں جانی نقصانات کے علاوہ بہت سے لوگ کسی نہ کسی معذوری کا بھی شکار ہوتے رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اس دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ان کی حکومت ناگہانی حالات میں معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت سمجھتی ہے کہ معذور افراد ملک کی پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کے بقول ہنگامی حالات سے نمٹنے کی پالیسیاں تیار کرتے وقت ان افراد کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کو معاشرے میں برابر کا شہری سمجھنے اور انھیں ان کا جائز مقام دینے کے لیے رویوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان ڈس ایبلڈ فاؤنڈیشن کے چیئرمین شاہد احمد میمن کا کہنا ہے کہ آفات میں متاثر ہونے والے معذور افراد کی اگر بروقت امداد اور بحالی پر توجہ نہ دی جائے تو یہ لوگ معذوری کے ساتھ ساتھ نفسیاتی الجھنوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے لیے مزید تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
’’سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ جو ہمارے ہاں لوگوں کو معلومات حاصل ہیں اس معلومات کو عملی جامہ پہنانے کی تربیت نہیں ہے۔ معلومات تو ہوتی ہیں لیکن کسی ہنگامی صورتحال میں فوراً کیا اقدامات کرنا ہیں اس کی عملی تربیت نہیں ہوتی۔۔۔اخلاقی، ذہنی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے قائم اداروں کے عہدیدار اور منتظمین میں بھی اس تربیت کا فقدان ہے کہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کس طرح زیادہ مستعدی سے کام کریں۔
شاہد میمن نے کہا کہ معذوروں کی مدد اور بحالی کے لیے ادارے تو موجود ہیں لیکن ان کے درمیان رابطوں اور تعاون کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
’’بہت سے ملازم پیشہ لوگ کسی معذوری کا شکار ہونے کے بعد ملازمت چھوڑ دیتے ہیں یا ان کی وہ نوکری برقرار نہیں رہتی تو انھیں مشورہ دیا جائے کہ وہ کس طرح سے اپنی اس معذوری کے ساتھ ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے کر معقول انداز میں معذور افراد کو مشورے اور رہنمائی فراہم کرکے ان افراد کو پھر سے معاشرے کا فعال شہری بنانے میں بہت حد تک مدد مل سکتی ہے۔