پاکستانی عہدیداروں نے ایک مجوزہ منصوبے کے تحت ملک میں لاکھوں ویب سائٹس پر قدغن لگانے کے خدشات کو قبل از وقت قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
اظہار رائے اور معلومات تک آزادانہ رسائی سے متعلق ان خدشات کی وجہ ایک متعلقہ سرکاری ادارے کی طرف سے گزشتہ ماہ جاری کیا گیا وہ اخباری اشتہار ہے جس میں نجی شعبے اور تحقیق سے متعلق اداروں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ایک ایسا قومی نظام تیار کرنے میں حکومت کی مدد کریں جو انٹرنیٹ پر دستیاب مواد تک صافرین کی رسائی کو محدود کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
اظہار رائے اور معلومات کے آزادانہ حصول کی حمایت کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے اس مجوزہ منصوبے کو لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور اُن کی نجی زندگی میں مُخل ہونے کے مترادف قرار دیتے ہوئے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سے فوری طور پر دستبردار ہو جائے۔
لیکن متعلقہ ادارے نیشنل آئی سی ٹی آر اینڈ ڈی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) فنڈ کے منیجر پبلکیشنز ندیم ناصر نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ منصوبے پر تشویش اور اسے ترک کرنے کے مطالبات قبل از وقت ہیں۔
’’ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں ہے ... پہلے تجاویز آئیں گی پھر دیکھا جائے گا کہ ہم کچھ کر بھی پائیں گے یا نہیں۔‘‘
ندیم ناصر نے کہا کہ اخباری اشتہار نے ایک قسم کی ہل چل پیدا کر دی ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کے تحفظات پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ’’ سرکاری ردعمل پر کام ہو رہا ہے۔‘‘
سرکاری تفصیلات کے مطابق حکومت ایسا نظام قائم کرنا چاہتی ہے جس کی مدد سے اُس کے بقول ’’ناپسندیدہ یا قابل اعتراض‘‘ ویب سائٹس تک انٹرنیٹ کے صارفین کی رسائی کو روکا جا سکے۔
لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ مجوزہ نظام کے متعارف ہونے سے پاکستان میں مواصلات کی نگرانی اور انٹرنیٹ پر قدغن لگانے کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔
بعض بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر متعلقہ عہدے داروں کو لکھے گئے خطوط میں کہا ہے کہ پاکستان میں ہزاروں ویب سائٹس تک رسائی پر پہلے ہی پابندی ہے، جب کہ کچھ حکومت مخالف خاص طور پر بلوچ برادری سے متعلق ویب سائٹس تک رسائی کو بھی متنازع قانون کے تحت ناممکن بنایا جا چکا ہے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بورڈرز نامی تنظیم نے یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ ’’اس بات کی کیا ضمانت ہو گی کہ مجوزہ نظام سے لوگوں کے ای میل پیغامات، ٹیلی فون، تصاویر، اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پیغام رسانی کی نگرانی نہیں کی جائے گی؟‘‘
انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات تک رسائی سے متعلق خدشات کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا خصوصاً نجی ٹی وی چینلز کے لیے قواعد و ضوابط وضع کرنے والے سرکاری ادارے ’پیمرا‘ کا تیار کردہ ایک مجوزہ ضابطہ اخلاق بھی ان دنوں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ نئے ضابطہ اخلاق کی مدد سے حکومت آزادی صحافت پر قدغن لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
لیکن وفاقی وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اپنے حالیہ بیانات میں ان خدشات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا ہے۔ ’’پیپلز پارٹی کی حکومت معلومات تک رسائی اور اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔‘‘