پاکستان میں حالیہ برسوں میں جائیداد کی خریداری میں سرمایہ کاری خاصا منافع بخش کارروبار رہا ہے اور ملک میں کئی بڑی بڑی ’ہاؤسنگ سوسائٹیاں‘ بنیں، جن میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔
لیکن پاکستانی سرمایہ کارروں کی طرف سے صرف ملک میں ہی جائیدار کی خرید و فروخت میں نہیں بلکہ دبئی میں بھی پیسہ لگایا گیا۔
حال ہی میں پاکستان کے موقر انگریزی روزنامے ’ڈان‘ نے اپنی ایک خبر میں ’دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ‘ کے اپریل میں جاری ہونے والے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2015ء کے پہلے تین ماہ میں پاکستانیوں نے دبئی میں 37 کروڑ 90 لاکھ ڈالر مالیت کی جائیداد خریدی۔
اخبار کے مطابق دبئی میں جائیداد کے کاروبار میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں حجم کے لحاظ سے پاکستانیوں کا تیسرا نمبر جبکہ سرمایہ کاروں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستانی دوسرے نمبر پر ہیں۔
خبر کے مطابق 2013 اور 2014 میں پاکستانیوں نے دبئی میں چار ارب 30 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کی پراپرٹی خریدی۔
ان اعداد و شمار پر حکومت پاکستان کے کسی متعلقہ ادارے کی طرف سے تو کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن معاشی اُمور کے ماہرین اورجائیداد کی خرید و فروخت سے وابستہ افراد کا ماننا ہے کہ پاکستانیوں کی طرف سے دبئی میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی۔
پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے رکن قیصر اکرام اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دبئی میں جائیداد کے کاروبار میں تیزی اور محفوظ سرمایہ کاری وہاں اس شعبے میں پیسہ لگانے کی بڑی وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے شہروں اور غیر ممالک میں جائیداد بنانے کو بہت سے مالدار لوگ باعث فخر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’زیادہ لوگوں سب سے قریب، قابل رسائی اور محفوظ جگہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ دبئی کا فاصلہ پاکستان سے ایسے ہی ہے جیسے اسلام آباد سے کراچی۔ اسلئے لوگ وہاں جا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان میں امن وامان کے حوالے سے اکرام اللہ نے کہا کہ ’’بدقسمتی سے پاکستان میں سرمایہ دار کو تحفظ حاصل نہیں رہا، اسے اپنی جان کی فکر پڑی رہتی ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنا سرمایہ کھلی مارکیٹ میں ظاہر بھی نہیں کر سکتا۔ وہ چاہتا ہے کہ ایسی جگہ سرمایہ لگائے جہاں اس کی زندگی اور سرمایے کو تحفظ حاصل ہو، اور اس کا منافع یقینی اور بہتر انداز میں ملے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اپنی حکومت کی طرف سے تسلی بخش اقدامات اور پالیسیوں میں مستقل مزاجی کے فقدان کی وجہ سے لوگ کو اپنا سرمایہ باہر منتقل کر رہے ہیں۔
لیکن پاکستانی حکومت حالیہ مہینوں میں بارہا یہ اعلان کرتی رہی ہے کہ ناصرف مقامی سرمایہ کارروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا بلکہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والوں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے لیے اقدامات کے اعلانات کیے گئے۔
معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی نے اکرام اللہ خان کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول اور مواقع حوصلہ افزا نہیں۔
انہوں کا کہنا تھا کہ’’یہاں پر بجلی کی فراہمی ناکافی ہے اور ٹیکسوں کا بوجھ، خصوصاً انڈسٹری پر بہت زیادہ ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے لوگ یہاں انویسٹ کرنے کی بجائے ترجیح دیتے ہیں کہ باہر انویسٹ کریں اور ایسے شعبوں میں کریں جو نسبتاً محفوظ ہوں۔‘‘
تاہم سرمایے کی بیرون ملک منتقلی ملکی معشت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ قیصر بنگالی نے کہا کہ ’’جب یہاں سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے، کارخانے نہیں لگیں گے اور ملک میں پیداور نہیں ہو گی جس سے ہماری برآمدات سے کمی آئے گی۔‘‘
امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے اور توانائی کے بحران سے نمٹنے کے علاوہ حکومت کو معاشی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
قیصر بنگالی نے کہا کہ ’’ہمارا کلی اقتصادی ڈھانچہ سٹے بازی کو ترجیح دیتا ہے۔ آپ سٹاک مارکیٹ میں کھیلیں، زمین کی خرید و فروخت کریں، اشیا کی ذخیرہ اندوزی کریں۔ اس میں اتنے پیسے بن جاتے ہیں کہ کوئی نہیں چاہتا کہ وہ کارخانہ لگائے اور ایسا کاروبار شروع کرے جس میں ان کو دن میں آٹھ دس گھنٹے دینے پڑے اور محنت کرنی پڑے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس نظام کو بدل دے اور سٹے بازی میں منافع کے مواقع کو کنٹرول کرے، چاہے وہ سٹاک مارکیٹ ہو یا زمینوں کی مارکیٹ ہو، اس سے سرمایہ دار صنعتکاری کی طرف راغب ہو گا جس سے معیشت کے حجم میں اضافہ ہو گا، دولت پیدا ہوگی اور عام آدمی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
قیصر اکرام اللہ کا خیال ہے کہ پاکستان کے حالات بدلنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے معاہدے کے بعد پاکستان کی جغرافیائی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں پراپرٹی کے کاروبار پر بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ’’پاکستانیوں کو چاہیئے کہ وہ حب الوطنی کی بنیاد پر اور اچھے منافع کی امید پر پاکستان میں ہی انویسٹ کریں۔‘‘
پاکستان کی موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ توانائی کے بحران کے حل اور سرمایہ کارروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں تاکہ اُن کے اعتماد میں اضافہ۔