پاکستان کے لیے ایران کے سفیر ماشااللہ شاکری نے بدھ کو اسلام آباد میں پاک ایران تعلقات کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک پاکستان کے ساتھ تجارت اور توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے میں انتہائی سنجیدہ ہے. لیکن اُن کے بقول وہ حالیہ برسوں میں ان اہم موضاعات پر بات چیت میں پاکستانی قیادت کی عدم دلچسپی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ایران نے اپنی جانب پائپ لائن کی توسیع پاکستان کی سرحد تک کردی ہے اور زبانی جمع خرچ کی بجائے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اس منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ اس منصوبے کے بارے میں ہم ویسا ہی کرتے رہے ہیں جیسا پاکستان نے چاہا لیکن2007ء میں جب بھارت نے اس منصوبے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تب سے آج تک پاکستانی حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ماشااللہ شاکری نے شکایت کے انداز میں کہا کہ اگر پاکستان کے خیال میں بھارت اس مجوزہ (پاک ایران) گیس پائپ لائن منصوبے کو ناکام کرنے کے درپے تھا تو پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ ترکمانستان سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے ’ٹیپی‘ میں بھی تو بھارت شامل ہے اور ایسی صورت میں پاکستان نے اس منصوبے میں شمولیت کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ اگر پاکستان نے’ ٹیپی‘ کے منصوبے میں اب تک کوئی سرمایہ کاری نہیں کی ہے توبرائے مہربانی مزید سرمایہ کاری نہ کرے اور اس کی بجائے پاکستانی حکومت کو اپنی تمام تر توجہ ایران سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر مرکوز کرنے چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ پاکستانی صدر چین کے چھ دورے کرچکے ہیں جبکہ وزیراعظم اور دیگر پاکستانی عہدے دارے بھی چین جا چکے ہیں لیکن تجارت اور توانائی جیسے اہم مسائل پر بات چیت کے لیے پاکستانی رہنما تسلسل سے ایران کے دورے کیوں نہیں کرتے۔ ایرانی سفیر کے بقول پاکستان ایران پر بھی اتنا ہی بھروسا کرسکتا ہے جتنا کہ وہ چین پر کرتا ہے۔
ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ اُن کے ملک اس حد تک بھی تیار ہے کہ پاکستان کو تاخیر سے ادائیگیوں کے بدلے خام تیل فراہم کرے اور اس بارے میں پاکستانی حکومت کو آگاہ بھی کیا جاچکا ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان بچھائی جانے والی 2600 کلومیٹر طویل پائپ لائن پر ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ جب کہ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبے ’ٹیپی‘ کے تحت تقریباً ساڑھے سولہ سو کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی ۔
ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن منصوبے کو ’آئی پی آئی‘کا نام دیا گیا تھا لیکن بھارت کے اس منصوبے سے الگ ہونے کے بعد اب صرف پاکستان ایران سے گیس درآمد کرے گا۔
پاکستانی حکام کہہ چکے ہیں ملک کو درپیش توانائی کے بحران پرقابو پانے کے لیے یہ دونوں منصوبے ناگزیر ہیں۔