سال 2003 میں اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں سینکڑوں سال پرانا برگد کا درخت آگ لگا کر چند گھنٹوں میں راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا گیا تھا۔ اس دوران شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس کارروائی کے پیچھے مبینہ طور پر اسی سیکٹر میں واقع ایک مدرسے کے طلبا کا ہاتھ تھا۔
درخت کو جلا دینے کی وجہ یوں تو سمجھ نہیں آتی لیکن فوزیہ مِنا اللہ جو باقاعدہ طور پر اسلام اباد میں قدیم درختوں کو بچانے کی ایک کمیٹی کی سرگرم رکن رہی ہیں۔ اس واقعہ کو ہرگز کوئی اتفاق نہیں سمجھتیں۔
ان کے بقول 'چونکہ برگد انڈیا کا قومی درخت ہے اس لیے ناخواندہ تو چھوڑیے کئی پڑھے لکھے پاکستانی بھی اس درخت کی دیکھ بھال اور افزائش کو اچھا نہیں سمجھتے۔
فوزیہ مِنا اللہ کا کہنا ہے کہ 'یہ درخت بدھ مت کمیونٹی کے نزدیک مقدس تھا اور اس کمیونٹی کے کچھ لوگ یہاں دھیان لگا کر بیٹھ جاتے تھے، یہ بات علاقہ مکینوں میں موجود کچھ انتہا پسندوں کو گوارا نہیں تھی۔'
فوزیہ مِنا اللہ کہتی ہیں کہ برگد کے درختوں کو درپیش خطرات صرف مذہبی انتہا پسندی سے ہی منسلک نہیں بلکہ دیگر عوامل اور عدم تحفظ بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔
اسلام آباد میں کتنے برگد کے درخت ہیں؟
اسلام آباد کی کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے) کے اعدادوشمار کے مطابق 2011ء تک شہر میں 174 برگد کے درخت تھے۔ جن میں سے 64 سید پور اور 47 گولڑہ کے عاقے میں ہیں۔
ان درختوں میں شاہ اللہ دتا نامی غاروں کے سامنے پھیلے برگد کے درخت بھی شامل ہیں جن کی گہری جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی ہیں۔
رواں سال سی ڈی اے نے 200 سے زائد درختوں کو "پروٹیکٹڈ" قرار دیا جس کی ایک وجہ درختوں کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کی کاوشیں ہیں، تاہم بلدیاتی انتخابات کے بعد ان درختوں کی دیکھ بھال کا ذمہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے پاس آ چکا ہے۔
اسلام آباد کے ڈپٹی مئیر ذیشان نقوی کا دعویٰ ہے کہ حالات میں کافی تبدیلی آ چکی ہے ان کے بقول 'ہمیں اندازہ ہے کہ یہ درخت اسلام آباد کے لیے کتنے اہم ہیں اسی لیے جہاں جہاں یہ درخت لگے ہوئے تھے ان کے آس پاس حفاظتی انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں'۔
زیشان نقوی کے مطابق 'یہ درخت کوئی آج تو لگے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں پائے جانے والی ایک خاص نسل ہے جو ہزاروں سال سے اس دھرتی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں مغل بادشاہوں سے لے کر انگریزوں کے دور حکومت تک ان درختوں کو خاص اہمیت دی گئی۔
پرانے درختوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ لوکل گورنمنٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس بار ملین ٹری مہم کے تحت اس نسل کے نئے درخت بھی لگائے ہیں۔
اسلام آباد کا پھیلاؤ اور درختوں کی کٹائی
فوزیہ مِنا اللہ نے بتایا کہ عدم توجہی ان پیپل اور برگد کے درختوں کی تباہی کی واحد وجہ نہیں ہے 'اسلام آباد میں سالہا سال سے رہنے والے افراد بخوبی واقف ہیں کہ یہ ایک الگ مزاج کا، مارگلہ کے دامن میں بسا چھوٹا سا شہر تھا لیکن آبادی میں اضافے اور شہر کے پھیلاؤ کی زد میں آکر بہت سے تاریخی درخت اب ماضی کا قصہ بن گئے ہیں۔
فوزیہ کہتی ہیں کہ 'بیشتر درخت پرانے مندروں کے آس پاس تھے جن میں اب خال خال ہی کوئی سلامت ہے، چند درخت تیزی سے ختم ہوتے ہوئے جنگلات میں ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں 1200 سال پرانا پیپل کا درخت بھی ہے جسے لوگوں نے 'ماں اور نو بچے' کا نام دے رکھا ہے، درخت کی ہیت ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ جیسے ماں نے اپنے بچوں کو آغوش میں لے رکھا ہے۔
میٹرو پولیٹن انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود ماہرین کے نزدیک برگد کے درختوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نظر نہیں آتا جبکہ ان درختوں کی حفاظت اور افزائش پر مناسب توجہ نہیں دی جا رہی۔
ڈپٹی مئیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شجرکاری مہم کے دوران نوجوانوں میں ان درختوں سے متعلق شعور اجاگر کر کے بھی نئی نسل کو اس تاریخی درخت کی اہمیت سے روشناس کروایا جا سکتا ہے۔