'اسلام آباد دی بیوٹی فل' کا نعرہ ایک عرصہ تک اس شہر کی پہچان رہا۔ لیکن، اب اس شہر کا قدرتی حسن جیسے ماند پڑنے لگا ہے۔ نئی نئی سڑکیں اور میٹرو تو بنی، لیکن شہر کا قدرتی حسن، یعنی درخت اور سبزہ دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔
اس بارے میں چشم کشا حقائق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ماحولیاتی مسائل پر ایک خصوصی رپورٹ میں جاری کیے گئے، جس میں بتایا گیا ہے کہ مارگلہ ہلز پر آئے دن لگنے والی آگ اور میٹرو روٹ پر درختوں کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارگلہ ہلز پر آگ لگنے کے واقعات اور میٹرو روٹ کے باعث ہزاروں درخت غائب ہوچکے ہیں۔ گرین ایریاز پر پولیس اور فائیو سٹار ہوٹلز کا قبضہ ہے، جہاں انہوں نے اپنی پارکنگ اور دفاتر بنا رکھے ہیں۔
یہ ہرا بھرا شہر آلودگی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جہاں پر درخت، پانی اور زمین سب قبضہ مافیا کے رحم و کرم پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مارگلہ ہلز پر تین سالوں میں آگ لگنے کے 146 واقعات میں 3 ہزار درخت جل گئے۔ میٹرو روٹ کو بھی ہزاروں درختوں کی لاشوں سے گزارا گیا جہاں کٹنے والے درختوں کا کوئی ریکارڈ ہی دستیاب نہیں ہے، درختوں اور ماحولیات پر کنٹرول رکھنے کے ادارے وفاقی ترقیاتی ادارے کے پاس درختوں کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی نظام یا ڈیٹا ہی نہیں ہے۔
اب تک شہر کے803 ایکڑ جنگلات تباہ ہوچکے ہیں، جبکہ 122 کنال قیمتی اراضی پر تجاوزات قائم ہوچکے ہیں۔ کئی مقامات پر سرکاری اور جنگلات کی زمین پر گھر اور سڑکیں بن چکی ہیں۔
اس متمول اور مہنگے شہر میں گرین بیلٹس پر اسلام آباد کی ٹریفک پولیس نے دو مختلف مقامات پر دفاتر بنا رکھے ہیں، جبکہ شہر میں موجود فائیو سٹار ہوٹلز نے بھی گرین بیلٹس پر قبضہ کرکے اپنی پارکنگ بنا رکھی ہے، بہت سے سرکاری و نجی اداروں نے بھی اس گرین بیلٹ جہاں صرف درخت لگنا تھے، پارکنگ بنا لی، شہر میں مختلف جگہوں پر سی این جی اسٹیشن، دکانیں، کھوکھے اور بس اسٹینڈ بھی گرین بیلٹس پر قائم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، اسلام آباد کا اسپتال ویسٹ مینجمنٹ مانیٹرنگ سسٹم غیر موثر جبکہ پارکس، نالوں اور گرین ایریاز پر کچی بستیاں قائم ہو گئیں ہیں۔ تمام ماحولیاتی مسائل کا ذمہ دار سی ڈی اے کو قرار دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے ترجمان، مظہر حسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی اس رپورٹ سے انکار نہیں کرسکتے۔ لیکن، شہر میں شجرکاری کے حوالے سے ہر سال چھ لاکھ سے زائد درخت لگائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ درخت ضائع بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ عمل جاری رہتا ہے۔
تجاوزات کے حوالے سے، انہوں نے کہا کہ بہت سی گرین بیلٹس پر بنائی گئے کھوکھے گذشتہ سال آپریشن کرکے ختم کردیے گئے اور اب شہر میں صرف لائسنس یافتہ کھوکھے ہی موجود ہیں۔
گرین بیلٹس میں کار پارکنگ کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ صرف ان مقامات پر اوپن سپیس چارجز لینے کے بعد پارکنگ کی اجازت دی جاتی ہے جہاں درخت زیادہ نہ ہوں اور پارکنگ کے ذریعے موجود درختوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ مظہرحسین کا کہنا تھا کہ نالوں کے کنارے آباد بستیوں کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔