لاپتا افراد کی بازیابی کی کوششیں سست روی کا شکار‘

لاپتا افراد کی بازیابی کی کوششیں سست روی کا شکار‘

انسانی حقوق کی علم بردار مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کا الزام ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بغیر مقدمات قائم کیے درجنوں افراد کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے جن میں مشتبہ شدت پسندوں کے علاوہ صوبہ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)‘ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں لاپتا افرادکو بازیاب کرنے کی کوششوں میں تیزی لائے۔

ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس سلسلے میں حکومت سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

اُن کے بقول ”اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل نہیں کیا جارہا جب کہ خاص طور پر بلوچستان کی صورت حال کودیکھتے ہوئے اس کو اولین ترجیح دینی چاہیئے، سیاسی پارٹیوں کو بھی ، عدالت کو بھی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکار وں پر بھی پابندی ہونی چاہیئے کہ وہ بغیر مقدمہ درج کیے ، بغیر اعلان کیے ، بغیر عدالت میں پیش کیے کسی کو گھر سے نہیں اُٹھا سکتی ہے۔“

انسانی حقوق کی علم بردار مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کا الزام ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بغیر مقدمات قائم کیے درجنوں افراد کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے جن میں مشتبہ شدت پسندوں کے علاوہ صوبہ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہیں۔

ان غیر سرکاری تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ ”لاپتا افراد“ کہلانے والے ان لوگوں کو رہا کیا جائے اور اگر وہ کسی جرم میں مطلوب ہیں تو اُن کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا آغاز کیا جائے۔

ایچ آر سی پی نے دو سال قبل سپریم کورٹ کے سامنے 170 لاپتا افراد کی ایک فہرست پیش کرتے ہوئے اُن کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت نے عدالت کو بتایا ہے کہ لاپتا افراد میں سے کئی سرکاری اداروں کی تحویل میں ہیں۔

حکومت کا موقف ہے کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور یکم مارچ سے بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق جج فضل الرحمن کی قیادت میں دو رکنی کمیشن بھی بنادیا گیا ہے جس کے پاس لاپتا افراد کے لواحقین اپنی شکایات درج کراسکیں گے۔ یہ کمیشن صوبوں
کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بازیابی کے لیے کام کر ے گا۔

اس کے علاوہ رواں ہفتے چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک نے اراکین پارلیمان کی ایک کمیٹی بنانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جو لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اب تک کی جانے والی کوششوں کے عمل کی نگرانی کر ے گی۔

وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس اندراج شدہ 203 لاپتا افراد میں سے 28 کو بازیاب کر الیا گیا ہے جب کہ باقی افراد کی بازیابی کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔

بلوچ قوم پرست تنظیموں کا کہنا ہے کہ اُس کے سینکڑوں افراد لاپتا ہیں اور اُن کا الزام ہے کہ وہ ملک کے خفیہ اداروں اور سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں لیکن حکومت اس کی تردید کر تی ہے۔

ایچ آر سی پی کا بھی کہنا ہے کہ لاپتا افراد کے بارے میں بعض تنظیموں کی طرف سے فراہم کیے جانے والے اعدادوشمار درست نہیں کیوں کہ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ صرف ایسے افراد کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل ہونا چاہیئے جن کے لواحقین مکمل کوائف کے ساتھ سرکاری کمیشن یا غیرسرکاری تنظیموں سے رابطہ کریں۔