بلوچستان حکومت نے صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ کے حالیہ جائزے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حقائق کے برعکس ہے۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حقوق انسانی کی علم بردار غیر سرکاری تنظیم نے اپنی جائزہ رپورٹ مرتب کرتے وقت سرکاری موقف معلوم نہیں کیا۔
اُنھوں نے بلوچستان میں تعینات نیم فوجی سکیورٹی فورس ’فرنٹیئر کور‘ کے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی بھی تردید کی۔ ”الزام لگانا ایک علیحدہ بات ہے اور حقیقت میں ہونا علیحدہ بات ہے ... لاپتہ افراد کے 130 کیسز ہیں جن میں سے 46 افراد کو بازیاب کرایا جا چکا ہے جب کہ 38 کیسز ایسے ہیں جن کے بارے میں ان واقعات کی چھان بین کے لیے قائم کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ لاپتا افراد کے زمرے میں نہیں آتے۔“
ایک روز قبل ایچ آر سی پی کی سربراہ زہرہ یوسف نے کوئٹہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لاپتا افراد کا ہے، جنھیں مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز نے غیرقانونی طور پر اپنی تحویل میں لے رکھا ہے اور بعض کو ماورائے عدالت قتل بھی کیا ہے۔
”جو کمیشن بنا ان واقعات کی تحقیقات کرنے کے لیے وہ بھی اپنی طرف سے کوئی خاص کام نہیں کر سکا جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی پریشانی ہے۔“
زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص پر جرم میں ملوث پونے کا شبہ ہے تو اُسے قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ لاپتا افراد کی لاشوں کی دریافت کا سلسلہ بھی جاری ہے جن پر اکثر تشدد کے نشانات موجود ہوتے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی سربراہ نے الزام لگایا کہ ’فرنٹیئر کور‘ نے صوبائی حکومت کے ماتحت ہونے کے باوجود تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔ تاہم اکبر حسین درانی نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا۔
”ایف سی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور اُسے صوبائی حکومت ہی سول انتظامیہ کی مدد کے لیے بلاتی ہے ... اگر اس کے اہلکار کوئی ایسا کام کرتے جو قانون کے خلاف ہو تو وہ باقاعدہ کمیشن اور عدالت کے سامنے بھی جواب دیتے ہیں۔ تو محض یہ کہہ دینا کہ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں، تو ایسی بات نہیں ہے۔“