کراچی: کالج کی ملکیت کی قانونی جنگ، طلبہ کا مستقبل 'غیر یقینی'

فائل فوٹو

ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملے کی قانونی حیثیت جیسی کی ویسی ہی ہے اور ملکیت کے دعوے دار ٹرسٹ کی پوزیشن اب بھی مضبوط ہے۔

ان دنوں کراچی میں عائشہ باوانی کالج کی ملکیت کا تنازع میڈیا میں اہم موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ حکومت سندھ اور عائشہ باوانی اکیڈمی ٹرسٹ دونوں ہی اس اہم کالج کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ دوسری جانب معاملے پر عدالتی حکم امتناع کے باعث چھ روز کے وقفے کے بعد ایک بار پھر درس و تدریس کا آغاز ہوگیا ہے۔

اس کالج میں تقریباً 2500 سے زائد طلباٗ زیر تعلیم ہیں۔ کالج فی الحال حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کے تحت چل رہا ہے۔ دوسری جانب ٹرسٹ کا دعویٰ ہے کہ سندھ حکومت اس کالج پر 2003ء سے غیرقانونی طور پر قابض ہے، کالج کی 17 کمروں پر مشتمل عمارت ٹرسٹ کی ملکیت ہے جیسے اس کے ساتھ منسلک لڑکوں اور لڑکیوں کے چار دیگراسکولز اس ٹرسٹ کی ملکیت ہیں۔

اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو کراچی کی شارع فیصل پر واقع تقریباً چار ایکڑ زمین 1959ء میں فلاحی مقاصد کے لئے ٹرسٹ کو لیز پر دی گئی۔ تاہم 1972ء میں حکومت کی جانب سے تعلیمی ادارے قومیانے کے بعد اس زمین پر قائم پانچوں تعلیمی ادارے بھی سرکاری تحویل میں آگئے۔

1984ء میں حکومت پاکستان نے چاروں اسکولز ٹرسٹ کو واپس کردئیے۔ تاہم کالج پھر بھی حکومت سندھ ہی کے پاس رہا۔ عائشہ باوانی اکیڈمی ٹرسٹ نے کالج واپس نہ کرنے پر 2003 میں اس عمارت میں کالج چلانے کا لائسنس منسوخ کردیا اور اسی سال ٹرسٹ نے حکومت سندھ کو کالج خالی کرنے کا نوٹس بھی دے دیا۔ تاہم حکومت سندھ نے نوٹس کا جواب دیا اور نہ ہی پراپرٹی واپس کی۔

حکومت سندھ کی جانب سے کسی بھی قسم کا ردعمل سامنے نہ آنے پر ٹرسٹ کی جانب سے 2005 میں عدالت میں دعویٰ دائر کردیا گیا۔ چارسال بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ٹرسٹ کی ملکیت کا دعوٰی درست ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ حکومت سندھ نومبر 2003 سے اب تک 50 ہزار روپے فی ماہ کے حساب سے کرایہ ادا کرے اور کالج کی عمارت ٹرسٹ کے حوالے کرے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت سندھ نے دعوے کی سماعت کے دوران تحریری طور عدالت میں مدعی کا دعویٰ تسلیم کیا۔ صوبائی حکومت کے وکیل نے دعوے کی سماعت کے دوران گواہ پر جرح تک بھی نہ کی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح لکھا ہے کہ حکومت سندھ کے وکیل نے دوران سماعت کالج کی ملکیت کے دعوے پر کوئی اعتراض تک نہ کیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ مارشل لاء ریگولیشن جس کے تحت تعلیمی اداروں کو قومیایا گیا اس کا مقصد ان اداروں کی مینجمنٹ حاصل کرنا تھا، تاہم ان اداروں کی جائیداد بحق سرکار ضبط نہیں ہوئی۔ اس طرح سندھ حکومت مارشل لاء ریگولیشن ایکٹ کی روشنی میں زمین کی مالک نہیں۔

تاہم سندھ حکومت سندھ نے فیصلے کے خلاف دو سال کے انتظار کے بعد 2011 میں اپیل داخل کی، جسے عدالت نے مقررہ وقت گزر جانے کے دائر کی جانے والی اپیل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اس پر نظر ثانی کی اپیل بھی 2017 میں مسترد کردی گئی۔

فیصلے پر عملدرآمد کے وقت حکومت سندھ نے عدالت سے حکم امتناع حاصل کرنے کی ایک اور کوشش کی لیکن 16 سمتبر کو وہ بھی رد کردی گئی۔ جس کے بعد عدالتی حکم کی روشنی میں کالج خالی کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

مقامی میڈیا پر کالج سیل کرنے کی خبریں آنے پر حکومت کو بھی ایکشن لینا پڑا اور ایک بار پھر حکومت سندھ، کالج پرنسپل اور دیگر نے عدالت میں نئی آئینی درخواستیں دائر کیں جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ کالج بند ہونے سے یہاں زیر تعلیم 2500 بچوں کا مستقبل اور تعلیمی سال خطرے میں پڑ جائے گا۔

عدالت نے آئینی درخواست پر فی الحال کالج پر دعویٰ جیتنے والے ٹرسٹ کو حوالگی کا عمل روک دیا ہے اور تمام فریقین سے آئندہ سماعت تک جواب طلب کرلیا ہے، جبکہ کالج میں چھ روز کے وقفے کے بعد درس و تدریس کا دوبارہ آغاز بھی کردیا گیا ہے۔

بظاہر سب کچھ دوبارہ اپنی جگہ پر آچکا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملے کی قانونی حیثیت جیسی کی ویسی ہی ہے اور ملکیت کے دعوے دار ٹرسٹ کی پوزیشن اب بھی مضبوط ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دعوے میں اول تو ملکیت پر کوئی اعتراض کیا ہی نہیں گیا۔ اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ مقررہ وقت گزر جانے کے بعد اپیل دائر کی گئی جو مسترد ہی ہونی تھی۔

دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ نیچے کی سطح پر حکومت کا کیس پیش کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے جس کے ذمہ داران کا تعین بھی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کالج حکومت کی ملکیت ہے جس کا ہرصورت دفاع کیا جائے گا اور اسی وجہ سے حکومت سندھ کی جانب سے ایک اور دعویٰ بھی دائر کردیا گیا ہے۔ تاہم ابھی اس بارے میں حتمی عدالتی فیصلہ جاری ہونا باقی ہے اور دونوں فریقین کے درمیان عدالتی جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے۔