پاکستانی کشمیر: ابریشم سازی کے فروغ کی کوششوں کا آغاز

  • روشن مغل
ابریشم ڈویلپمنٹ سینٹر کے ریسرچ آفیسر مسعود طاہر نے بتایا کہ کسان کو محکمہ ابریشم کی طرف سے ایک پیکٹ بیج پانچ سو روپے میں مہیا کیا جاتا ہے، جس میں بیس ہزار کے لگ بھگ کیڑے ہو تے ہیں جس سے دس کلوگرام کی کون حاصل کر کے بیس ہزار روپے تک فروخت کی جاتی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ابریشم سازی کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ایک بار پھر سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کا مقصد مقامی سطح پر روزگار مہیا کرنا اور لوگوں کی غربت میں کمی لانا ہے۔

ریشم کے کیڑوں کی گھروں میں افزائش اور اس سے تیار ہونے والے ریشم کو فروخت کرنے کا سلسلہ سینکڑوں سالوں سے کشمیر میں رائج رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر مقامی طور پر یہ صنعت تقریباً معدوم ہوتی چلی گئی۔

لیکن اب محکمہ ابریشم کی طرف سے دیہی علاقوں میں لوگوں کو ریشم کے کیڑے پالنے سے متعلق آگاہی مہم شروع کرنے کے علاوہ اس کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے بھی اقدام کرنے کا بتایا گیا ہے۔

محکمے کے ناظم سردار محمد شفیق کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں لوگ ریشم کے کیڑے پال کر اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتے ہیں جب کہ اس سے قدرتی ماحول کا تحفظ یقینی بنانے میں بھی قابل ذکر مدد ملے گی۔

ابریشم ڈویلپمنٹ سینٹر کے ریسرچ آفیسر مسعود طاہر نے بتایا کہ کسان کو محکمہ ابریشم کی طرف سے ایک پیکٹ بیج پانچ سو روپے میں مہیا کیا جاتا ہے، جس میں بیس ہزار کے لگ بھگ کیڑے ہو تے ہیں جس سے دس کلوگرام کی کون حاصل کر کے بیس ہزار روپے تک فروخت کی جاتی ہے۔

محکمہ ابریشم کے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس صنعت کے فروغ نہ پانے کی ایک بڑی وجہ اس کا حکومتی ترجیحات میں شامل نہ ہونا بھی ہے۔

دس برس قبل آنے والے زلزلے میں ابریشم سازی کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا۔

دارالحکومت مظفرآباد کے نواحی علاقے پٹہکہ میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی "یو این ڈی پی" کے تعاون سے قائم ابریشم سازی مرکز بھی بُری طرح متاثر ہوا تھا جس کی وجہ سے ابریشم سازی کے بیج کی پیداوار انتہائی کم سطح پر آ گئی تھی۔