پاکستان نے ایک بار پھر عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کروانے میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے۔
1990ء سے ہر سال کی طرح اس بار بھی پانچ فروری کو پاکستان میں سرکاری طور پر یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا جس کا مقصد بھارتی کشمیر کے عوام کے ساتھ یگانگت کا اظہار کرنا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے عوام پر ان کے بقول ظلم و ستم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیرینہ تنازع حل کیے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔
کشمیر شروع ہی سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان متنازع چلا آ رہا ہے جس کا ایک حصہ پاکستان اور ایک بھارت کے زیر انتظام ہے۔ بھارت پورے علاقے پر اپنے حق ملکیت کا دعویدار ہے جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کے عوام پر منحصر ہے۔
گزشتہ جولائی میں ایک علیحدگی پسند نوجوان کمانڈر برہان وانی کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں صورتحال انتہائی کشیدہ چلی آ رہی ہے۔
اس صورتحال کی پاکستان کی طرف سے کی جانے والی مذمت کو بھارت اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان اُس کے ہاں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کی مبینہ حمایت سے باز رہے۔
تاہم اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
اتوار کو پاکستان میں یہ دن ایک ایسے وقت منایا گیا جب بھارت کے ساتھ پہلے ہی اس کے تعلقات انتہائی حد تک خراب ہیں اور دو طرفہ اعلیٰ سطحی رابطے بھی معطل ہیں جب کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف تندو تیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کشیدگی میں مزید اضافہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں اور اگر اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے اقدام نہیں کیے جاتے تو اس سے پورے خطے کا امن متاثر ہونے کا قوی خدشہ ہے۔
بھارتی کشمیر کی یونیورسٹی کے پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تمام مسائل کی جڑ کشمیر ہی ہے اور اس کا حل کیا جانا ضروری ہے جس کے لیے دونوں ملکوں کو بات چیت کرنا ہو گی۔
"جوہری طاقتیں اور ایک دوسرے سے اتنا قریب ہونے کے ناطے بھی دونوں ملکوں کی مخاصمت خطرناک ہے۔۔۔کشمیری خاص طور پر نوجوان نسل یہ نہیں چاہتی کہ اس مسئلے کو اب زیادہ دیر تک یوں ہی لٹکایا جائے۔"
امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک اور اقوام متحدہ بھی یہ کہتے آ رہے ہیں کہ دونوں ملک باہمی طور پر بات چیت کے ذریعے باہمی کشیدگی کو کم کریں۔ لیکن بین الاقوامی امور کے پاکستان میں ایک معروف تجزیہ کار حسن عسکری کا خیال ہے کہ بھارت کو سفارتی طور پر تاحال کسی بھی طرح کے دباؤ کا سامنا نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت میں لچک کا مظاہرہ کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
بھارت کا موقف ہے کہ وہ بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن اس کے بقول پاکستان پہلے دہشت گردی کی مبینہ حمایت بند کرے۔ اسلام آباد ان الزمات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنے ہاں جنگ لڑ رہا ہے اور بھارت کو چاہیئے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے اور باہمی احترام کی بنیاد پر مسائل کے حل پر بات چیت کرے۔