پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں امن کا ضامن ہے اور اعتماد کے دیرینہ فقدان کو دور کرکے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
جمعرات کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قانون ساز اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی سیاسی اور سفارتی حمایت کے عزم پر قائم ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے اس نے عالمی سطح پر اپنے موقف کو بھر پور طریقے سے اجاگر کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا خواہاں ہے کیونکہ یہ خطے میں دیر پاامن کے لیے ناگزیر ہے۔
"پاکستان ایک واضح موقف رکھتا ہے کہ اس خطے میں دیرپا امن کا قیام مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر ناممکن ہے اور کشمیر کو شامل کیے بغیر پاکستان مذاکرات کے کسی ایجنڈے کو مکمل نہیں سمجھتا دنیا پر ہمارا موقف واضح ہو رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں بسنے والے ڈیڑھ سو کروڑ انسانوں کا مستقبل مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل سے وابستہ ہے۔"
بھارت بھی پاکستان کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات کرتا ہے لیکن وہ کشمیر کی بجائے دہشت گردی کو مذاکراتی ایجنڈے میں سرفہرست رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔
1947ء میں تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی کشمیر کا علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع ہے اور دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بھی ۔ اس کا ایک حصہ پاکستان جب کہ ایک بھارت کے زیر انتظام ہے۔
پاکستان کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق یہاں کی عوام کے استصواب رائے سے حل کرنے کا خواہاں ہے جب کہ بھارت کا موقف ہے کہ اس علاقے کا الحاق اس کے ساتھ ہو چکا ہے اور یہ اس کا حصہ ہے۔
1990ء سے ہر سال پانچ فروری کو پاکستان میں کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے۔
جمعرات کو پاکستان میں عام تعطیل تھی جب کہ اس دن کی مناسبت سے چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف تقاریب اور سیمینارز کا اہتمام بھی کیا گیا۔
کشمیر کے علاوہ پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اس دن کی مناسبت سے ریلیوں کا اہتمام کیا جس میں مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔