پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرداں تنظیموں اور رضاکاروں کے مطابق، عدم برداشت، غربت، قانون سے عدم آگہی، خلاف مرضی شادی، بے راہ روی اور قانون پر عملدرآمد نہ ہونا خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کا سبب ہے۔
اس طرح کا ایک واقعہ چند روز قبل پاکستانی کشمیر کی وادی نیلم میں بھی پیش آیا ہے، جس میں ایک شخص نے اپنی بیٹی اور بیوی کو قتل کرکے دریا میں پھینک دیا۔
راولاکوٹ میں عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن، ڈاکٹر خدیجہ نذر نے بتایا ہے کہ گزشتہ چند ماہ تشدد اور خوف و ہراس کا شکار بننے والی دو درجن سے زائد خواتین نے ان سے مدد کے لیے رابطہ کیا، جبکہ براہ راست پولیس کے پاس جانے والے اور بدنامی کے ڈر کے باعث پردہ ڈالے گئے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
خدیجہ نذر نے بتایا کہ ایک لڑکی کو بعض بااثر افراد کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے بارے میں پولس کو آگاہ کیا گیا۔ لیکن، ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ تشدد کا شکار خواتین کی مدد کی کوشش کرنے والے بھی ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں بااثر افراد ردعمل میں انکو نقصان نہ پہنچائیں۔
سماجی بہبود کی وزیر، نورین عارف کا کہنا ہے کہ عورتوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون پر بھرپور عمل درآمد نہ ہونے کے نتیجے میں بھی اس طرح کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
راحت فاروق ایڈووکیٹ کئی برس تک عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے تعاون سے تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کو قانونی مدد فراہم کرتی رہی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ خواتین کو حراساں کرنے کے حوالے سے قانون بھی بن چکا ہے۔ لیکن ان واقعات کو بالکل سامنے ہی نہیں لایا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات عام سے واقعات کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
محکمہٴ سماجی بہبود کے عہدیدار اسرار مغل ’’دین اسلام سے دوری، بے راہ روی، روایات کے خاتمے، رائج قوانین سے عدم آگہی، غیر معیاری تعلیم اور غربت کو ان واقعات کا پس منظر قرار دیتے ہیں‘‘۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات اور سوشل میڈیا پر بھی آئے روز عورتوں کے خلاف تشدد اور قتل کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اور زیادہ تر واقعات میں تحقیقات حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی جرگے کے ذریعے ختم کر دیے جاتے ہیں۔