پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں شدت پسندی اور پھر فوجی آپریشن کے باعث نقل مکانی کر کے خیبر پختوںخواہ کے مرکزی شہر پشاور میں عارضی طور پر قیام کرنے والے بعض خاندانوں نے عید کا دن بھی احتجاج کرتے ہوئے گزارا۔
ان افراد کا کہنا ہے کہ انھیں راشن اور مالی امداد کی مد میں رقوم فراہم نہیں کی جا رہیں جس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور بارہا عہدیداروں کی توجہ اس طرف دلائے جانے کے باوجود ان کی شکایات کا ازالہ نہیں کیا جا رہا۔
قناعت خان آفریدی 2009ء میں اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کر کے پشاور آئے تھے اور بے گھر افراد کے لیے قائم کیمپ میں مقیم ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس مشکل صورتحال میں عید کا تہوار ان کے لیے کسی بھی طرح خوشی کا موقع نہیں ہے۔
"ہم لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، راشن بھی نہیں ہے، عید ہماری کچھ نہیں، ہم لوگوں کا گھر بھی وہاں پر ہے ابھی عید کے لیے کپڑے بھی نہیں، چپلیں بھی نہیں، بچوں کا بھی کچھ نہیں ہے۔ عید ایسے گزار رہے ہیں کہ جیسے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔"
احتجاج کرنے والوں میں شامل ایک مقامی قبائلی رہنما اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ بے گھر ہونے والے افراد کی فلاح کے لیے حکومت مناسب اقدام نہیں کر رہی جس کی وجہ سے ان لوگوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔
بعض دیگر افراد نے بتایا کہ جو لوگ اپنے آبائی علاقوں کی طرف واپس گئے ہیں انھیں بھی وہاں شدید مشکلات کا سامنا ہے جن میں پینے کے صاف پانی کی کمیابی سے لے کر اشیائے ضروری کی دستیابی کا نہ ہونا شامل ہیں۔
قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے ادارے "ایف ڈی ایم اے" کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عادل ظہور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خیبر ایجنسی کے جو علاقے شدت پسندوں سے کلیئر کروائے جا چکے ہیں اور وہاں بحالی کا کام مکمل ہو چکا ہے وہاں لوگوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے جب کہ دیگر لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے متعلقہ سرکاری محکموں کے ساتھ مل کر مربوط کوششیں کی جا رہی ہیں۔
خیبر ایجنسی میں 2014ء میں خیبر ون اور پھر خیبر ٹو کے نام سے فوج نے شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی تھی جس میں سیکڑوں مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا۔
ماضی میں یہاں سکیورٹی فورسز شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔ امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس علاقے سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے جن کی مرحلہ وار واپسی کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔