قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کے پہلے سالانہ بجٹ میں ان علاقوں کے لیے 162 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے منگل کے روز مالی سال 2020-2019 کے لیے تحمینہ جات پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے بجٹ کا حجم 900 ارب روپے ہے جس میں صوبے میں ضم ہونے والے اضلاع کے لیے 162 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ضم ہونے والے اضلاع کے لیے مختص شدہ رقوم میں 151 ارب روپے وفاقی حکومت جب کہ 11 ارب روپے صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ 162 ارب کے علاوہ قبائلی اضلاع کے نقل مکانی سے متاثرہ افراد کے لیے بھی 17 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 83 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جس میں صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی اور مواصلات کی سہولتیں فراہم کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
اُنہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے 18 ہزار افراد کو مختلف سرکاری محکموں میں ملازمتیں دی جائیں گی۔ جب کہ خا صہ دار لیویز فورسز کو باقاعدہ خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ بنانے سے بھی لگ بھگ 27 ہزار افراد کو فائدہ پہنچے گا۔
پچھلے سال مئی میں قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے وقت وفاق اور صوبوں نے ان علاقوں کے ترقی کے لیے قومی مالیاتی کمشن سے سالانہ بنیادوں پر تین فیصد وسائل فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر صوبائی وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی کے بقول اب پنجاب، سندھ اور بلوچستان ان وعدوں کو پورا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے چارسدہ سے ممبر صوبائی اسمبلی شکیل بشیر عمرزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سے نہ صرف قبائلی عوام میں احساس محرومی بڑھے گا بلکہ دیگر تین صوبوں کے انکار کے بعد اب سارا بوجھ صوبہ خیبر پختونخوا کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
صوبائی بجٹ پیش کرتے وقت حزب اختلاف کے ممبران اسمبلی نے اسپیکر کے سامنے شدید احتجاج کیا اور قومی اسمبلی میں آصف علی زرداری اور دیگر گرفتار ممبران اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔
ممبران اسمبلی نے احتجاج کرتے وقت حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور کچھ دیر کے بعد اُنہوں نے بجٹ تقریر کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔