پاکستان کی قومی اسمبلی نے سابق قبائلی علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی بڑھانے سے متعلق 26 ویں آئینی ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔
اس آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی جنرل نشستوں کی تعداد چھ سے بڑھ کر 12 اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں 16 سے بڑھ کر 24 ہو جائے گی۔
پیر کو اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترمیم پر رائے شماری ہوئی۔
قبائلی علاقوں سے منتخب آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی جانب سے پیش کیے گئے آئینی ترمیمی بل 2019 کے حق میں 288 اراکین نے ووٹ دیا۔ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار کسی آزاد رکن کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترمیمی بل کو حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے قبائلی علاقوں کو زیادہ نمائندگی دینے سے متعلق آئینی ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ عمران خان نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں کے عوام بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، لیکن اب ان کی آواز ہر جگہ سنی جائے گی۔
عمران خان نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کے بعد علاقے کی ترقی کے لیے تمام صوبے اپنے حصے میں سے تین فیصد فاٹا کو دینے پر متفق تھے۔ لیکن کچھ صوبوں کو اس پر خدشات ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فاٹا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے تباہی کا ازالہ خیبرپختونخوا تنہا اپنے ترقیاتی فنڈز سے نہیں کرسکتا ہے۔
انھوں نے مشرقی پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں احساس محرومی تھا اور پورے پاکستان کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کسی علاقے کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان انہیں اپناتا نہیں ہے۔ یہ احساس محرومی بہت خطرناک ہے اور پاکستان کے دشمن اسے استعمال کرسکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سابق فاٹا میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے حوالے سے ترمیم کا متفقہ منظور ہونا اہم قومی معاملات پر سیاسی قیادت کے اتفاق رائے کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس ایوان کی کامیابی تھی کہ پچھلی حکومت کے آخری دنوں میں فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق تاریخی آئینی ترمیم ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ان کی جماعت نے فاٹا کے عوام کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے اور ان کی جماعت کے بانی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فاٹا ریفارمز کمیٹی تشکیل دی تھی۔
یاد رہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کا بل 2018 میں منظور ہوا تھا، جس کے بعد فاٹا میں ایف سی آر کو ختم کر کے اُسے قومی دھارے میں لایا گیا۔ فاٹا انضمام کے بل کے تحت قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشستوں کی تعداد کم کر دی گئی تھی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں قبائلی علاقوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
قانون میں کہا گیا تھا کہ جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد ایک سال کے اندر اندر قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے جائیں گے۔
جلد الیکشن کا مطالبہ
قومی اسمبلی سے 26 ویں آئینی ترمیمی بل کے متفقہ منظوری پر خیبر پختونخوا کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے قبائلی عوام میں موجود احساس محرومی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
تاہم، بعض سیاسی تجریہ کاروں کے مطابق، اس آئینی ترمیمی بل کی منظوری سے آئندہ 2 جولائی کو صوبائی اسمبلی کی 16 عام نشستوں کا شیڈول متاثر ہوگا بلکہ اب قبائلی اضلاع سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات کم از کم 6 مہینوں کے دوران مکمل کرنا ناممکن ہو گا۔
ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل اعجاز مہمند کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات کروانے میں مخلص نہیں دکھائی دیتی، ورنہ یہ آئینی ترمیم پہلے بھی لائی جا سکتی تھی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری جنرل اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے ترمیمی بل کی منظوری کو خوش آئندہ قرار دیا اور ان نشستوں پر جلد از جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ چاہیے تھا کہ 25 آئینی ترمیم میں نشستوں کا تعین ہوتا تو آج قبائلی عوام صوبائی اسمبلی میں نمائندگی سے محروم نہ ہوتے۔
جمیعت العلماء اسلام (ف) کے رہنما عبدالجلیل جان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن نے قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ اُٹھایا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ نشستوں میں اضافے سے قبائلی عوام مطمئن ہونگے اور ان کے زیادہ تر مسائل اور مشکلات حل ہونے میں مدد ملے گی۔
جماعت اسلامی کے ضلع خیبر کے امیر شاہ فیصل آفریدی نے بھی ترمیمی بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کم از کم قبائل کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا مداوا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد قبائل کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں کو ایفا کرنے سے قبائلی عوام مطمئن ہوں گے۔
پختون تحفظ تحریک کے رہنما عبداللہ ننگیال نے بھی نشستوں میں اضافے کے ترمیمی بل کے منظوری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب پارلیمانی سرکار اور سیاسی اداروں میں لوگوں کو جائز نمائندگی حاصل ہو تو ان کے جائز مسائل حل ہونگے۔
اُنہوں نے کہا کہ قبائل کی آبادی زیادہ ہے مگر ماضی میں ہونے والی مردم شماریوں میں اسے کم ظاہر کیا گیا۔ لہذا، ملک کے دیگر علاقوں کی طرح قبائلی اضلاع کے لوگوں کو بھی آبادی ہی کے بنیاد پر صوبائی اور قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ میں نمائندگی دینی چاہیے۔
الیکشن کمیشن کے پہلے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق، دو جولائی کو قبائلی اضلاع سے 16 عام اور پانچ مخصوص نشستوں کیلئے داخل کردہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم، سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیمی بل کے ایوان بالا اور صدر کے منظوری کے بعد دو جولائی کو ہونے والے انتخابات کا شیڈول منسوخ تصور ہو گا، کیونکہ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور الیکشن آئندہ چھ مہینے سے ایک سال کی مدت میں کروائے جائیں گے۔