سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کو لے جانے والی بس میں چارسدہ روڈ پر گل بیلہ کے مقام پر زوردار دھماکا ہوا۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں جمعہ کی دوپہر ایک بس میں بم دھماکے سے کم از کم 18 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔
پولیس کے مطابق جمعہ کو پشاور میں سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کو لے جانے والی بس جب چارسدہ روڈ پر گل بیلہ کے علاقے میں پہنچی تو گاڑی میں پہلے سے نصب بارودی مواد میں دھماکا ہوا۔
بس میں تقریباً 50 سے زائد افراد سوار تھے جو پشاور میں دفتر سے چھٹی کے بعد چارسدہ جا رہے تھے۔
زخمی ملازمین اب بھی دو سرکاری اسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
خیبر پختونخواہ پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے سربراہ شفقت ملک نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق 12 سے 15 کلو گرام بارودی مواد بس میں نصب کیا گیا تھا جس میں ریمورٹ کنٹرول سے دھماکا کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے صوبائی رکن اسمبلی ارباب اختر حیات نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ایسے حملے حکومت کی طرف سے شدت پسندوں سے مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش بھی ہو سکتے ہیں۔
’’میرے خیال میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ مذاکرات ہوں۔‘‘
گزشتہ سال جولائی میں جمعہ ہی کو اسی علاقے میں سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کو لے جانے والی بس میں بم دھماکا ہوا تھا جس میں 21 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
خیبر پختونخواہ میں حالیہ مہینوں میں پرتشدد واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اتوار کو پشاور کے علاقے کوہاٹی گیٹ میں ایک چرچ پر ہونے والے خودکش بم حملوں میں کم از کم 83 افراد ہلاک اور 130 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
پولیس کے مطابق جمعہ کو پشاور میں سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کو لے جانے والی بس جب چارسدہ روڈ پر گل بیلہ کے علاقے میں پہنچی تو گاڑی میں پہلے سے نصب بارودی مواد میں دھماکا ہوا۔
بس میں تقریباً 50 سے زائد افراد سوار تھے جو پشاور میں دفتر سے چھٹی کے بعد چارسدہ جا رہے تھے۔
زخمی ملازمین اب بھی دو سرکاری اسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
خیبر پختونخواہ پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے سربراہ شفقت ملک نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق 12 سے 15 کلو گرام بارودی مواد بس میں نصب کیا گیا تھا جس میں ریمورٹ کنٹرول سے دھماکا کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے صوبائی رکن اسمبلی ارباب اختر حیات نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ایسے حملے حکومت کی طرف سے شدت پسندوں سے مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش بھی ہو سکتے ہیں۔
’’میرے خیال میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ مذاکرات ہوں۔‘‘
گزشتہ سال جولائی میں جمعہ ہی کو اسی علاقے میں سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کو لے جانے والی بس میں بم دھماکا ہوا تھا جس میں 21 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
خیبر پختونخواہ میں حالیہ مہینوں میں پرتشدد واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اتوار کو پشاور کے علاقے کوہاٹی گیٹ میں ایک چرچ پر ہونے والے خودکش بم حملوں میں کم از کم 83 افراد ہلاک اور 130 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔