صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف کے بقول تعلیم کے فروغ کے لیے اساتذہ کا کردار کلیدی ہوتا ہے اور اس پر بھی صوبائی حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے۔
پشاور —
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں شدت پسندوں کے بم حملوں میں صوبے کے لگ بھگ ساڑھے سات سو اسکولوں کو نقصان پہنچا تاہم اُن میں سے ایک بڑی تعداد کو درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے بحال کردیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک خاص طور پر صوبے کو درپیش مسائل کے دیرپا حل کے لیے شرح خواندگی اور معیار تعلیم کو بڑھانا ضروری ہے۔
"جب تک تعلیم اس صوبے میں، اس ملک میں نہیں ہو گی اُس وقت تک یہاں نا جمہوریت صحیح طرح چل سکتی ہے، نا یہاں کی معیشت ٹھیک ہو گی، نا شدت پسندی کے مسئلے حل ہوں گے۔"
محمد عاطف کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے کچھ ہی دن بعد بجٹ پیش کیا جانا تھا اس لیے رواں مالی سال کے دوران تعلیم کے لیے اُتنے وسائل مختص نہیں کیے جا سکے جتنا کہ اُن کی حکومت چاہتی تھی۔
تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ ماضی کے برعکس شعبہ تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ تعلیم سے محروم بچوں کے اسکولوں میں داخلے کے ایک منصوبے کو بھی شروع کیا گیا ہے۔
"صرف اس مسئلے کی اہمیت بتانے کے لیے ہم اب تک کوئی پونے تین لاکھ بچے اسکولوں میں داخل کرا چکے۔"
محمد عاطف کے بقول تعلیم کے فروغ کے لیے اساتذہ کا کردار کلیدی ہوتا ہے اور اس پر بھی صوبائی حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے اور آئندہ سال تقریباً 23 ہزار اساتذہ کی تربیت شروع کی جائے گی۔
ادھر صوبے میں بنیادی تعلیم کے لیے منصوبہ بندی کرنے والے امجد علی خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ صوبے کی کسی حکومت نے ان ’’بچوں کو آواز دی ہے جو اسکول نہیں آرہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے بہت سے شعبوں میں کام کرنا ابھی باقی ہے۔
معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیمیں بھی حکومت کی معاونت کر رہی ہیں اور اس ضمن میں وفاقی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ وہ تمام صوبوں کی بھرپور معاونت کرے گی۔
صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک خاص طور پر صوبے کو درپیش مسائل کے دیرپا حل کے لیے شرح خواندگی اور معیار تعلیم کو بڑھانا ضروری ہے۔
"جب تک تعلیم اس صوبے میں، اس ملک میں نہیں ہو گی اُس وقت تک یہاں نا جمہوریت صحیح طرح چل سکتی ہے، نا یہاں کی معیشت ٹھیک ہو گی، نا شدت پسندی کے مسئلے حل ہوں گے۔"
محمد عاطف کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے کچھ ہی دن بعد بجٹ پیش کیا جانا تھا اس لیے رواں مالی سال کے دوران تعلیم کے لیے اُتنے وسائل مختص نہیں کیے جا سکے جتنا کہ اُن کی حکومت چاہتی تھی۔
تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ ماضی کے برعکس شعبہ تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ تعلیم سے محروم بچوں کے اسکولوں میں داخلے کے ایک منصوبے کو بھی شروع کیا گیا ہے۔
"صرف اس مسئلے کی اہمیت بتانے کے لیے ہم اب تک کوئی پونے تین لاکھ بچے اسکولوں میں داخل کرا چکے۔"
محمد عاطف کے بقول تعلیم کے فروغ کے لیے اساتذہ کا کردار کلیدی ہوتا ہے اور اس پر بھی صوبائی حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے اور آئندہ سال تقریباً 23 ہزار اساتذہ کی تربیت شروع کی جائے گی۔
ادھر صوبے میں بنیادی تعلیم کے لیے منصوبہ بندی کرنے والے امجد علی خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ صوبے کی کسی حکومت نے ان ’’بچوں کو آواز دی ہے جو اسکول نہیں آرہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے بہت سے شعبوں میں کام کرنا ابھی باقی ہے۔
معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیمیں بھی حکومت کی معاونت کر رہی ہیں اور اس ضمن میں وفاقی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ وہ تمام صوبوں کی بھرپور معاونت کرے گی۔