پاکستان میں وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے حکومت مخالف احتجاج کرنے والی جماعتوں کے دھرنوں کو پارلیمانی جمہوری نظام سے متصادم قرار دیتے ہوئے جمعرات کو ملک بھر میں ہڑتال کی۔
ہڑتال کے دوران وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی دھرنے گزشتہ ہفتے سے جاری ہیں اور ان دونوں جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے اور کئی دیگر مطالبات کر رکھے ہیں۔
وکلا کی نمائندہ تنظیموں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ آئینی و قانون دائرہ کار میں رہتے ہوئے سیاسی بحران کا حل تلاش کریں۔
سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی زیر سماعت ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ وہ ان جماعتوں کو آئین و قانون سے ماورا مطالبات سے روکے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے حامیوں سے خطاب میں سول نافرمانی کا بھی اعلان کیا تھا جس کی ملک کے مختلف سماجی و سیاسی اور کاروباری حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی۔
سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جمعرات کو عمران خان اور عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری کو عدالت عظمیٰ میں طلب کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ وکلا برادری نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بہت جدوجہد کی ہے اور وہ کسی بھی ایسے کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جو آئین و قانون کے منافی ہو۔
"ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں کہ نواز شریف وزیراعظم رہتے ہیں یا نہیں یا حکومت رہتی ہے یا نہیں، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو آئین سے متصادم نہ ہو، اور اگر ایسا کچھ ہوا تو پھر بات صرف عدالتوں تک نہیں رہے گی، لاکھوں وکلا تک چلے جائے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج ہر کسی کا آئینی حق ہے لیکن آئین جن شہری حقوق کی یقین دہانی کرواتا ہے اگر وہ غصب ہو رہے ہوں یا ایسا ہونے کا خدشہ ہو تو اس پر عدالت عظمیٰ مداخلت کر کے آئین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔