الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کمیشن کو مطلع کیا ہے کہ ان کی طرف سے دسمبر کے پہلے ہفتے تک الیکشن کروانے کی با قاعدہ درخواست کی جائے گی۔
اسلام آباد —
پاکستان الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق کافی قانونی اور انتظامی پیچیدگیاں بدستور موجود ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے انہیں دسمبر تک دور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں مسلسل تاخیر پر برہمی کے بعد اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر میں جمعرات کو ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وفاقی اور چاروں صوبوں کے متعلقہ اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور صوبائی الیکشن کمشنرز نے ان انتخابات کے جلد سے جلد کروانے سے متعلق تیاریوں کا جائزہ لیا۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کمیشن کو مطلع کیا ہے کہ ان کی طرف سے دسمبر کے پہلے ہفتے تک الیکشن کروانے کی با قاعدہ درخواست کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد بھی کمیشن کو کم از کم ایک ماہ تیاری کے لیے چاہیئے ہو گا۔
تاہم مختلف مسائل کے تناظر انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ انتخابات کا انعقاد رواں سال نا ہوسکے گا۔ ’’ایک یونین کونسل ہے اور اس کی چھ نشستیں ہیں۔ اگر ان پر ایک ہی پارٹی کے چھ امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا انتخابی نشان ایک ہی ہے تو کوئی کس طرح فیصلہ کرے گا کہ وہ کس کو ووٹ کرے۔ تو یہ مسئلہ ہے۔ پھر پنجاب میں غیر جماعتی انتخابات کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چلینج ہو گیا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس پر فیصلے کے بغیر بھی یہ نہیں ہوسکتے۔‘‘
بلوچستان اور سندھ کی اسمبلیوں کے منظور کردہ قوانین کے مطابق انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے جبکہ خیبرپختونخواہ حکومت ضلعی سطح پر جماعتی اور یونین کونسل کی سطح پر غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان مسائل کا جائزہ لینے اور حل تلاش کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جو کہ رواں ماہ کے اواخر تک اپنی تجاویز پیش کریں گے۔
اشتیاق احمد خان نے انتخابات سے متعلق تاخیر پر الیکشن کمیشن کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا ’’2010ء سے ہم حکومتوں اور متعلقہ محکموں کو لکھ رہے ہیں کہ اس بارے میں قانون سازی اور دیگر فارمیلیٹیز مکمل کریں مگر بدقسمتی سے انہوں نے کچھ نا کیا۔‘‘
پارلیمان نے تین سال قبل اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے قانون کی منظوری دی تھی تاہم یہ عمل تاحال مکمل نا ہوسکا۔
خیبرپختونخواہ کی حکومت نے چند ماہ قبل سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ عدالت کے احکامات پر وہ کسی بھی وقت انتخابات کروانے کو تیار ہے۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت تا حال صوبائی اسمبلی میں اس بارے میں قانونی مسودہ بھی پیش نا کیا۔
صوبے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعہ کو مسودہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹر محسن لغاری کہتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کے نفاذ میں تاخیر سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
’’کہیں پر سڑک بن گئی۔ کہیں پہ کوئی نالی بن گئی یا واٹر اسکیم کا افتاح ہوگیا۔ یہ سب کام رک گئے ہیں اور پھر یہ سارا لوڈ نیشنل لیول کے پارلیمنٹرین پر آجاتا ہے۔ تو اگر آپ انھیں نالیاں اور سڑکیں بنوانے میں مصروف رکھو گے تو وہ پھر نالیاں ہی بنائے گا۔ پالیسیاں تو نہیں بنا سکے گا۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام نا صرف ملک میں جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ اس سے ملک میں طرز حکمرانی کے مسائل بھی بڑی حد تک حل ہو پائیں گے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں مسلسل تاخیر پر برہمی کے بعد اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر میں جمعرات کو ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وفاقی اور چاروں صوبوں کے متعلقہ اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور صوبائی الیکشن کمشنرز نے ان انتخابات کے جلد سے جلد کروانے سے متعلق تیاریوں کا جائزہ لیا۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کمیشن کو مطلع کیا ہے کہ ان کی طرف سے دسمبر کے پہلے ہفتے تک الیکشن کروانے کی با قاعدہ درخواست کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد بھی کمیشن کو کم از کم ایک ماہ تیاری کے لیے چاہیئے ہو گا۔
تاہم مختلف مسائل کے تناظر انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ انتخابات کا انعقاد رواں سال نا ہوسکے گا۔ ’’ایک یونین کونسل ہے اور اس کی چھ نشستیں ہیں۔ اگر ان پر ایک ہی پارٹی کے چھ امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا انتخابی نشان ایک ہی ہے تو کوئی کس طرح فیصلہ کرے گا کہ وہ کس کو ووٹ کرے۔ تو یہ مسئلہ ہے۔ پھر پنجاب میں غیر جماعتی انتخابات کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چلینج ہو گیا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس پر فیصلے کے بغیر بھی یہ نہیں ہوسکتے۔‘‘
بلوچستان اور سندھ کی اسمبلیوں کے منظور کردہ قوانین کے مطابق انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے جبکہ خیبرپختونخواہ حکومت ضلعی سطح پر جماعتی اور یونین کونسل کی سطح پر غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان مسائل کا جائزہ لینے اور حل تلاش کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جو کہ رواں ماہ کے اواخر تک اپنی تجاویز پیش کریں گے۔
اشتیاق احمد خان نے انتخابات سے متعلق تاخیر پر الیکشن کمیشن کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا ’’2010ء سے ہم حکومتوں اور متعلقہ محکموں کو لکھ رہے ہیں کہ اس بارے میں قانون سازی اور دیگر فارمیلیٹیز مکمل کریں مگر بدقسمتی سے انہوں نے کچھ نا کیا۔‘‘
پارلیمان نے تین سال قبل اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے قانون کی منظوری دی تھی تاہم یہ عمل تاحال مکمل نا ہوسکا۔
خیبرپختونخواہ کی حکومت نے چند ماہ قبل سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ عدالت کے احکامات پر وہ کسی بھی وقت انتخابات کروانے کو تیار ہے۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت تا حال صوبائی اسمبلی میں اس بارے میں قانونی مسودہ بھی پیش نا کیا۔
صوبے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعہ کو مسودہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹر محسن لغاری کہتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کے نفاذ میں تاخیر سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
’’کہیں پر سڑک بن گئی۔ کہیں پہ کوئی نالی بن گئی یا واٹر اسکیم کا افتاح ہوگیا۔ یہ سب کام رک گئے ہیں اور پھر یہ سارا لوڈ نیشنل لیول کے پارلیمنٹرین پر آجاتا ہے۔ تو اگر آپ انھیں نالیاں اور سڑکیں بنوانے میں مصروف رکھو گے تو وہ پھر نالیاں ہی بنائے گا۔ پالیسیاں تو نہیں بنا سکے گا۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام نا صرف ملک میں جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ اس سے ملک میں طرز حکمرانی کے مسائل بھی بڑی حد تک حل ہو پائیں گے۔