لانگ مارچ: ڈاکٹر طاہر القادری کا قافلہ کامونکی پہنچ گیا

کامونکی

وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت کا ریلی روکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دارالحکومت میں غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں
اتوار کی دوپہر لاہور میں واقع تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تنظیم کے مرکزی دفتر سے شروع ہونے والا قافلہ کامونکی پہنچ گیا۔

قافلہ ماڈل ٹاوٴن، فیصل ٹاوٴن، کینال روڈ، ریلوے اسٹیشن، مینارِ پاکستان ،شاہدرہ اور مریدکے سے ہو تا ہوا کامونکی پہنچا۔

قافلے کی سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے۔ جن جن علاقوں سے قافلہ گزرتا رہا وہاں موبائل فون سروس معطل کی جاتی رہی۔

موبائل فون سروس کی معطلی کیلئے لانگ مارچ کا روٹس چار حصوں میں منقسم ہے۔ ان زونز میں ماڈل ٹاوٴن سے مریدکے، مریدکے سے دینہ، جہلم سے راولپنڈی اور روات سے اسلام آباد شامل ہیں۔

پاکستان میں انتخابی اصلاحات سے متعلق اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام کارواں اتوار کی دوپہر لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا۔

ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مارچ میں شرکت کے لیے لاہور پہنچی۔

اس سے قبل، تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تنظیم کے مرکزی دفتر سے روانگی کے وقت شرکاٴ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ریلی کا مقصد انتخابی اصلاحات کے ذریعے ملک میں آئینی جمہوری نظام کا قیام ہے۔ انہوں نے کہا کہ مطالبات کی منظوری کے لیے ہر صورت اسلام آباد جا کر دھرنا دیا جائے گا۔

اپنی ریلی کو ’’جمہوریت کا مارچ‘‘ قرار دیتے ہوئے، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ’’پاکستان کی عوام کو غربت، خود کشی اور خود سوزی میں دھکیل دینے والے حکمرانوں کی حکومت و سلطنت کے خاتمے کا یہ مارچ ہے۔ اب جتنا وقت لگ گیا۔ اب نہ دنوں، نہ ہفتوں اور نہ مہینوں کی قید۔ یہ سفر اپنی منزل کربلا تک پہنچے گا اور جمہوری طرز سے تبدیلی لائے گا۔‘‘

ڈاکٹر طاہر القادری کا مطالبہ ہے کہ موجودہ الیکش کمیشن کو فوری طور پر تحلیل کردیا جائے۔ ان کے مطابق کمیشن کے سربراہ کے علاوہ چاروں اراکین صوبائی حکومتوں کے نامزد کردہ ہیں اس لیے وہ آئندہ انتخابات میں متعلقہ حکمران جماعتوں کے مفاد کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کا قیام تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کوئٹہ میں دہشت گردانہ واقعے میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے بلوچستان حکومت کی برطرفی اور اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ جمعرات کو بلوچستان کے دارالخلافہ میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں مرنے والے بیشتر افراد کا تعلق شیعہ ہزارہ برادری سے تھا۔

پاکستانی پرچم اٹھائے ایک بڑی تعداد میں ریلی کے شرکاء لاہور میں منہاج القرآن کے مرکزی دفتر سے گاڑیوں اور بسوں میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پنجاب اور وفاقی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ریلی کو ناکام بنانے کے لیے مختلف ہتھ کنڈے استعمال کررہے ہیں۔

تاہم دونوں حکومتوں کی جانب سے منہاج القرآن کے قائد کے ان الزامات کی تردید کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً دس ہزار پولیس اہلکاروں کی اضافی نفری اور رینجرز کے دستے لانگ مارچ کی سکیورٹی پر مامور کیے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت کا ریلی روکنے کا کوئی ارادہ نہیں تاہم انہوں نے کہا کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دارالحکومت میں غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے تنبیہہ کی کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے خفیہ اداروں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ یہ معلومات حاصل کریں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ریلی کو وسائل کہاں سے مہیا ہو رہے ہیں۔

’’کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ایک شخص پانچ چھ سال بعد واپس وطن آئے اور کہے نظام بدلو۔ اس کے لیے آئین، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سب درست نہیں۔ صرف وہ شخص ٹھیک ہے جو ہمیشہ خیالوں میں رہتا ہے۔‘‘

تحریک منہاج القرآن کے رہنماء گزشتہ چند سال سے کینیڈا میں مقیم تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے وہاں کی بھی شہریت حاصل کرلی ہے۔

حکومت کی جانب سے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ کو ریلی منسوخ کرنے اور ان کے مطالبات پر مشاورت کی کئی کوششیں کی گئیں مگر یہ سب تاحال بے سود ثابت ہوئی ہیں۔