پاکستان میں یونیسف کے عہدیدار ڈان روہرمین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک میں 44 فیصد بچے غذائی کمی جب کہ 15 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں بچوں میں غذائی قلت کو دور کرنے کے لیے حکومت ایک ٹاسک فورس تشکیل دے رہی ہے تاکہ صوبوں کے ساتھ مل کر اس ضمن میں اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے منگل کو قومی غذائی جائزہ رپورٹ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے لیکن ان کے بقول یہ ایک صحت مند قوم کے بغیر ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک سے بھوک اور غذائی قلت کے خاتمے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
ٹاسک فورس کی تشکیل کے بارے میں وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر خصوصاً بچوں اور خواتین میں غذائی قلت کے خاتمے پر کام کرے گی۔
انھوں نے اس ضمن میں ڈاکٹروں کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بارے میں تربیت فراہم کی جانی چاہیے اور لوگوں میں اس متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہر سال مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس بارے میں کی جانے والی درجہ بندی میں پاکستان چھبیسویں نمبر پر ہے اور یہاں پانچ سال سے کم عمر ایک ہزار میں سے 86 بچے مختلف قابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق ان اموات میں سے 35 فیصد کی وجہ غذائی قلت ہے۔
پاکستان میں یونیسف کے عہدیدار ڈان روہرمین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک میں 44 فیصد بچے غذائی کمی جب کہ 15 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
’’ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں وفاقی حکومت نے غذائی پروگرام بنایا تھا جو اب صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے پاس پالیسی موجود ہے کمپنیاں ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اب ضرورت اس امر ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کریں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کا مسئلہ ملک کی ترقی کے لیے مضر ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے حل لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے منگل کو قومی غذائی جائزہ رپورٹ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے لیکن ان کے بقول یہ ایک صحت مند قوم کے بغیر ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک سے بھوک اور غذائی قلت کے خاتمے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
ٹاسک فورس کی تشکیل کے بارے میں وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر خصوصاً بچوں اور خواتین میں غذائی قلت کے خاتمے پر کام کرے گی۔
انھوں نے اس ضمن میں ڈاکٹروں کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بارے میں تربیت فراہم کی جانی چاہیے اور لوگوں میں اس متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہر سال مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس بارے میں کی جانے والی درجہ بندی میں پاکستان چھبیسویں نمبر پر ہے اور یہاں پانچ سال سے کم عمر ایک ہزار میں سے 86 بچے مختلف قابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق ان اموات میں سے 35 فیصد کی وجہ غذائی قلت ہے۔
پاکستان میں یونیسف کے عہدیدار ڈان روہرمین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک میں 44 فیصد بچے غذائی کمی جب کہ 15 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
’’ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں وفاقی حکومت نے غذائی پروگرام بنایا تھا جو اب صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے پاس پالیسی موجود ہے کمپنیاں ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اب ضرورت اس امر ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کریں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کا مسئلہ ملک کی ترقی کے لیے مضر ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے حل لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔