مانسہرہ میں پیش آنے والے اس جنسی زیادتی کے ملزمان میں سے ایک مقامی مدرسے کا معلم قاری نصیر بھی شامل ہے جو کہ پولیس کے مطابق مرکزی ملزم ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے شمال مغرب میں پولیس نے کالج کی طالبہ سے جنسی زیادتی کے ملزمان کا چار روزہ ریمانڈ حاصل کر کے مزید تفتیش شروع کر دی ہے۔
مانسہرہ میں پیش آنے والے اس جنسی زیادتی کے واقع کے ملزمان میں سے ایک مقامی مدرسے کا معلم قاری نصیر بھی شامل ہے جو کہ پولیس کے مطابق مرکزی ملزم ہے۔
اس واقعے کی تفتیش کرنے والے ایک پولیس افسر ذوالفقار جدون نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ سیکنڈ ایئر کا امتحانی پرچے دے کر کالج سے گھر کے لیے نکلی تو اس کی ایک سہیلی نے اسے اپنے منگیتر کے ہمراہ گاڑی میں گھر تک لے جانے کی پیشکش کی۔
انھوں نے بتایا کہ گاڑی میں پہلے ہی سے تین نوجوان سوار تھے جنہوں نے راستے میں طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ذوالفقار جدون کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکی کی سہیلی کی قاری نصیر سے واقفیت تھی اور وہ اس سے قبل بھی مختلف لڑکیوں کو مدرسے کے معلم سے ملوا چکی تھی۔
"لڑکی کو ہم نے جیل بھجوا دیا ہے باقی تینوں ملزمان کی ہمیں کسٹڈی مل گئی ہے، قاری نصیر اور اس کے ساتھی ملزم فیضان سے مختلف موبائل فون کمپنیوں کی 20 سے زائد سمز بھی برآمد ہوئی ہیں۔ تمام شواہد موجود ہیں، لڑکی کی میڈیکل رپورٹ سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ زیادتی ہوئی ہے۔"
یہ واقعہ پیر کو پیش آیا تھا اور اس کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ میں ملزمان کو ٹی وی پر اعتراف جرم کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا لیکن بعض اطلاعات کے مطابق مرکزی ملزم اپنے بیان سے منحرف ہو رہا ہے۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی جنسی زیادتی اور اجتماعی آبروریزی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کم ہی کوئی مقدمہ اپنے منطقی انجام تک پہنچا ہے۔
حقوق انسانی خصوصاً خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم قوانین پر مؤثر عملدرآمد کا مطالبے کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی عورتوں اور بچیوں کے لیے خصوصی اقدامات کرنے پر زور دیتی آئی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں جنسی زیادتی کے 265 کیسز رپورٹ ہوئے۔
مانسہرہ میں پیش آنے والے اس جنسی زیادتی کے واقع کے ملزمان میں سے ایک مقامی مدرسے کا معلم قاری نصیر بھی شامل ہے جو کہ پولیس کے مطابق مرکزی ملزم ہے۔
اس واقعے کی تفتیش کرنے والے ایک پولیس افسر ذوالفقار جدون نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ سیکنڈ ایئر کا امتحانی پرچے دے کر کالج سے گھر کے لیے نکلی تو اس کی ایک سہیلی نے اسے اپنے منگیتر کے ہمراہ گاڑی میں گھر تک لے جانے کی پیشکش کی۔
انھوں نے بتایا کہ گاڑی میں پہلے ہی سے تین نوجوان سوار تھے جنہوں نے راستے میں طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ذوالفقار جدون کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکی کی سہیلی کی قاری نصیر سے واقفیت تھی اور وہ اس سے قبل بھی مختلف لڑکیوں کو مدرسے کے معلم سے ملوا چکی تھی۔
"لڑکی کو ہم نے جیل بھجوا دیا ہے باقی تینوں ملزمان کی ہمیں کسٹڈی مل گئی ہے، قاری نصیر اور اس کے ساتھی ملزم فیضان سے مختلف موبائل فون کمپنیوں کی 20 سے زائد سمز بھی برآمد ہوئی ہیں۔ تمام شواہد موجود ہیں، لڑکی کی میڈیکل رپورٹ سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ زیادتی ہوئی ہے۔"
یہ واقعہ پیر کو پیش آیا تھا اور اس کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ میں ملزمان کو ٹی وی پر اعتراف جرم کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا لیکن بعض اطلاعات کے مطابق مرکزی ملزم اپنے بیان سے منحرف ہو رہا ہے۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی جنسی زیادتی اور اجتماعی آبروریزی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کم ہی کوئی مقدمہ اپنے منطقی انجام تک پہنچا ہے۔
حقوق انسانی خصوصاً خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم قوانین پر مؤثر عملدرآمد کا مطالبے کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی عورتوں اور بچیوں کے لیے خصوصی اقدامات کرنے پر زور دیتی آئی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں جنسی زیادتی کے 265 کیسز رپورٹ ہوئے۔