'شام کی صورتِ حال پر پاکستان غیر جانب دار ہی رہ سکتا ہے'

پاکستان کے دفترِ خارجہ سے ہفتے کی شب جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کسی بھی طرح سے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جانے کی مذمت کرتا ہے اور ایسے واقعات کی شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے۔

شام میں سرکاری فورسز کی طرف سے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف امریکہ اور اس کے دو اتحادی ملکوں کی عسکری کارروائی پر پاکستان نے محتاط انداز میں ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے اقوامِ متحدہ کے میثاق کے منافی اقدامات سے گریز کرنے کا کہا ہے۔

پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی قوتوں کے درمیان شام کے معاملے پر پیدا ہونے والا تناؤ خطرناک رخ اختیار کر سکتا ہے اور ایسے میں پاکستان کے لیے اپنے حالات کے پیش نظر اس میں کسی ایک فریق کی حمایت ممکن دکھائی نہیں دیتی۔

امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے ہفتے کو علی الصباح دمشق کے نواح میں میزائل داغے تھے جن کا ہدف کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات اور ایک تحقیقی مرکز تھا۔

شام کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کو مسترد کرتا آیا ہے جب کہ اس کے قریبی اتحادی روس کے علاوہ چین نے بھی امریکہ کی زیرِ قیادت فضائی کارروائیوں پر شدید تنقید کی ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ سے ہفتے کی شب جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کسی بھی طرح سے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جانے کی مذمت کرتا ہے اور ایسے واقعات کی شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے۔

بیان کے مطابق پاکستان کا خیال ہے کہ شام کے بحران کے حل کے لیے واضح سفارت کاری کی پالیسی اپنائی جانی چاہیے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور ترکی نے امریکی فوجی کارروائی کی حمایت جب کہ ایران، روس اور چین نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔

سینئر تجزیہ کار پروفیسر سجاد نصیر کے خیال میں پاکستان کے لیے کھل کر کسی فریق کی حمایت میں کھڑا ہونا بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندرونی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اس تنازع میں فریق بنے۔

"اس وقت جو حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ایک طرف ہیں، دوسری طرف روس اور چین ہے۔۔ پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے تو پاکستان تو اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ وہ کسی ایک فریق کی حمایت کرے۔ یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ہماری داخلی صورتِ حال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ ہمیں یہ نہیں پتا کہ اگلے مہینے ڈیڑھ میں کیا تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔۔۔ غیر جانبدار ہی رہ سکتا ہے پاکستان۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔"

لیکن بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی بین الاقوامی منظر نامے میں خطرات کے بادل گہرے ہوتے دیکھ رہی ہیں اور ان کے خیال میں یہ صورتحال گھمبیر ہو سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روس کی حمایت ملنے سے شام کے صدر بشار الاسد کی پوزیشن بہت مضبوط ہوئی ہے اور مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود انھیں بے دخل نہیں کیا جا سکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب روس شام میں موجودگی کے علاوہ بحری اڈے کے لیے ترکی کے ساتھ 49 سال کا معاہدہ کر چکا ہے اور یہ اقدام ان کے بقول مختصر مدت کی پالیسی ظاہر نہیں کرتے۔

"ایک واضح اتحاد ہے جو بن رہا ہے۔ ترکی، ایران، روس جو ایک طرف کھڑا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب ہے مغربی قوتوں کے ساتھ۔ ہم سرد جنگ کی سیاست دیکھ رہے ہیں۔ لیکن مجھے خطرہ ہے کہ یہ سرد جنگ اتنی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔"

تاہم پروفیسر سجاد نصیر کہتے ہیں کہ فی زمانہ کسی ملک کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ باقاعدہ جنگ میں الجھے اور اسے طویل مدت تک جاری رکھے۔

"میرا خیال ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان اس قسم کی لڑائی ممکن نظر نہیں آتی۔۔۔ دونوں کسی حد تک جنگ کو لے کر چل سکتے ہیں۔ لیکن اس کو آپ مستقل نہیں لے جا سکتے۔ آج کے دور میں میرا نہیں خیال کہ آپ باقاعدہ جنگ کریں۔"

شام کی صورتِ حال پر امریکہ سمیت مختلف عرب ممالک میں بھی مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں جب کہ پاکستان میں بھی بعض مذہبی جماعتوں نے اپنے حالیہ مظاہروں میں شام کی صورتِ حال پر توجہ دلانے کی کوشش کی۔

ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی فریق شام میں کارروائیاں کرتا ہے تو اس میں نقصان شام کے عوام کا ہی ہو رہا ہے اور اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔