صوبائی وزیر صحت نے بتایا کہ 11 جنوری تک 29 لاکھ بچوں کو ویکسین کی پہلی خوراک دی جائے گی جب کہ اس کا دائرہ کار بڑھانے کے علاوہ اب نو ماہ سے 10 سال کی عمر کے بچوں کو ویکسین دی جا رہی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں حالیہ مہینوں کے دوران بچوں میں خسرے کی بیماری وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے جس سے 210 بچے موت کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ سینکڑوں بچوں میں اس کے پھیلاؤ کا خدشہ بدستور موجود ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ملک بھر خصوصاً جنوبی صوبہ سندھ میں بچوں میں پھیلنے والی خسرے کی وبا کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں اور ذمہ داران کو اس کے تدارک کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق راجہ پرویز اشرف نے 18 آئینی ترمیم کے بعد شعبہ صحت کی صوبوں کو منتقلی کے تناظر میں کہا ہے کہ بچوں کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں صوبائی حکومتوں کو زیادہ موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
صوبہ سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور سمیت صوبے کے آٹھ اضلاع میں خسرے کا مرض وبائی شکل اختیار کر چکا ہے اور صرف دسمبر میں 81 بچے اس بیماری سے ہلاک ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ خسرے سے بچاؤ کی ویکسین کی مرحلہ وار مہم کے دوران 11 جنوری تک سندھ کے آٹھ اضلاع میں 29 لاکھ بچوں کو خسرے سے بچاؤ کی ویکسین دی جا رہی ہے۔
صوبائی وزیر صحت نے عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کردہ بچوں کی اموات کے اعداد و شمار سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں تین سو سے زائد ہلاکتوں کی خبروں کی وہ تصدیق نہیں کریں گے، کیونکہ ایسی اطلاعات میں پہلے یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ ان میں کتنے بچے خسرے سے موت کا شکار ہوئے اور کتنے بچے نمونیا، دست، سردی کی شدت یا دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہوئے۔
ڈاکٹر صغیر احمد نے بتایا کہ یکم فروری سے خسرے سے بچاؤ کی ویکسین کی دوسری خوراک بھی بچوں کو دینا شروع کی جائے گی جس کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ صوبہ سندھ اور بالخصوص سیلاب زدہ اضلاع میں خسرے سے متاثر ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد سامنے آئی ہے جو کہ تقریباً 7800 ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ملک بھر خصوصاً جنوبی صوبہ سندھ میں بچوں میں پھیلنے والی خسرے کی وبا کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں اور ذمہ داران کو اس کے تدارک کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق راجہ پرویز اشرف نے 18 آئینی ترمیم کے بعد شعبہ صحت کی صوبوں کو منتقلی کے تناظر میں کہا ہے کہ بچوں کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں صوبائی حکومتوں کو زیادہ موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
صوبہ سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور سمیت صوبے کے آٹھ اضلاع میں خسرے کا مرض وبائی شکل اختیار کر چکا ہے اور صرف دسمبر میں 81 بچے اس بیماری سے ہلاک ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ خسرے سے بچاؤ کی ویکسین کی مرحلہ وار مہم کے دوران 11 جنوری تک سندھ کے آٹھ اضلاع میں 29 لاکھ بچوں کو خسرے سے بچاؤ کی ویکسین دی جا رہی ہے۔
صوبائی وزیر صحت نے عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کردہ بچوں کی اموات کے اعداد و شمار سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں تین سو سے زائد ہلاکتوں کی خبروں کی وہ تصدیق نہیں کریں گے، کیونکہ ایسی اطلاعات میں پہلے یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ ان میں کتنے بچے خسرے سے موت کا شکار ہوئے اور کتنے بچے نمونیا، دست، سردی کی شدت یا دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہوئے۔
ڈاکٹر صغیر احمد نے بتایا کہ یکم فروری سے خسرے سے بچاؤ کی ویکسین کی دوسری خوراک بھی بچوں کو دینا شروع کی جائے گی جس کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ صوبہ سندھ اور بالخصوص سیلاب زدہ اضلاع میں خسرے سے متاثر ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد سامنے آئی ہے جو کہ تقریباً 7800 ہے۔