پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا خصوصاً نجی ٹی وی چینلز کے لیے قواعد و ضوابط وضع کرنے والے سرکاری ادارے ’پیمرا‘ کا تیار کردہ ایک مجوزہ ضابطہ اخلاق ان دنوں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ اس مسودے کا مقصد پاکستانی معاشرے میں مذہبی و ثقافتی اقدار کو بنیاد بنا کر ذاتی و سیاسی مفادات کے فروغ کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور قومی سلامتی سے متعلق مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
پیمرا نے اس مسودے کی شقوں پر سول سوسائٹی کے نمائندوں اور دانشوروں سے مشاورت کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے تاکہ اُن کی تجاویز کی روشنی میں تیار کی جانے والی حتمی دستاویز کی کابینہ سے منظوری حاصل کرکے اسے ایک باقاعدہ قانون کی شکل دی جا سکے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک بڑی تنظیم ’ایچ آر سی پی‘ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن بھی پیمرا کے مشاورتی عمل میں حصہ لینے والی شخصیات میں شامل ہیں۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش صورت حال کا تقاضا ہے کہ ذرائع ابلاغ خصوصاً نجی ٹی وی چینلز ٹھوس ادارتی پالیسی کو بنیاد بنا کر لوگوں تک معلومات پہنچائیں تاکہ مایوسی اور بے چینی میں اضافہ نہ ہو۔
’’ادارتی کنٹرول نظر نہیں آتا … مثلاً کالعدم تنظیموں کو مکمل کورج ملتی ہے، اُن کے رہنماؤں کے انٹرویو نشر ہوتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ پچھلے 10 سال میں پاکستان میں میڈیا کو جو آزادی حاصل رہی ہے اس کی مثال شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ملے۔
وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ تمام فریقین سے مشاورت اور اتفاق رائے سے ہی میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق کو حتمی شکل دی جائے گی۔
’’جہاں اتفاق رائے نہیں ہو گا کوئی قاعدہ و قانون زبردستی مسلط نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اُنھوں نے ان خدشات کو مسترد کیا ہے کہ حکومت آزادی صحافت پر قدغن لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
’’اس (ضابطہ اخلاق) میں وفاق کو متحد رکھنے میں چینل کے کردار کا معاملہ ہے، خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کے حوالے سے کچھ تجاویز ہیں، پراویسی اور ذاتی کوائف کا تحفظ ہے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران ذرائع ابلاغ کے شعبے نے غیر معمولی ترقی کی ہے لیکن بظاہر کوئی بھی نجی ٹی وی چینل اپنے ہاں ایک ٹھوس ادارتی پالیسی نافذ نہیں کر سکا اور نہ ہی اس نے اپنے عملے کے لیے پیشہ وارانہ تربیت کا انتظام کیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مقابلے کی دوڑ میں زیادہ تر ٹی وی چینلز مستند معلومات نشر کرنے کی بجائے سنسنی خیز خبریں پیش کرکے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔