پاکستان میں سماجی تنظیم سے وابستہ کارکنوں نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک ماہ قبل اسلام آباد سے لاپتا ہونے والے سرگرم کارکن ثمر عباس کی بازیابی کے لیے معاونت کریں۔
ثمر عباس خاص طور پر اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں شامل رہے ہیں اور وہ ایک غیر سرکاری تنظیم "سول پروگریسیو الائنس پاکستان" کے سربراہ بھی ہیں۔
ان کے اہل خانہ کے مطابق وہ گزشتہ ماہ کسی کام کے سلسلے میں کراچی سے اسلام آباد آئے تھے لیکن سات جنوری کے بعد سے ان سے کسی کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
ان کی گمشدگی کے بارے میں اسلام آباد کے پولیس تھانے میں رپورٹ بھی درج کروائی گئی تھی لیکن تاحال اس میں کسی طرح کی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس ہفتے میں ثمر عباس لاپتا ہوگئے تھے اس دوران اسلام آباد سمیت صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے دیگر چار سماجی کارکن بھی لاپتا ہوئے تھے جو تقریباً تین ہفتوں کے بعد اچانک اپنے گھروں کو لوٹ آئے تھے۔
لیکن ان کی گمشدگی اور پھر بازیابی کے بارے میں نہ تو حکام اور نہ ہی ان کے اہل خانہ نے کوئی تفصیل فراہم کی۔
سول پروگریسیو الائنس پاکستان کے ایک عہدیدار طالب رضا نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ انھیں نہیں معلوم کہ ثمر عباس کی گمشدگی کے کیا حالات و واقعات ہیں لیکن وہ بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
"پاکستان میں جو تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان سے ہم رابطے میں ہیں اور جو بین الاقوامی تنظیمیں ہیں ان سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس میں ہماری مدد کریں تاکہ ترقی پسند آوازوں کو مسلسل دبانے والوں کے خلاف ایک دفاع پیدا کیا جا سکے۔"
انھوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم عدم مساوات اور عدم برداشت کے خلاف آواز بلند کرتی آ رہی ہے اور اس سلسلے میں انھیں کبھی کوئی دھمکی موصول نہیں ہوئی۔
ثمر عباس کے اہل خانہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ثمر کا جنوری میں لاپتا ہونے والے دیگر سرگرم کارکنوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
تاحال حکام کی طرف سے بھی ثمر کی گمشدگی کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن گزشتہ ماہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے تھے کہ لاپتا سماجی کارکنوں کو جلد بازیاب کروا لیا جائے گا اور اس کے بعد چاروں گمشدہ افراد مختلف اوقات میں بازیاب بھی ہو گئے تھے۔
ثمر عباس کے بھائی نے ہفتہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی جمع کروائی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ چونکہ پولیس ابھی تک ثمر کی بازیابی میں ناکام رہی ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں کسی طرح کی معلومات فراہم کی جا رہی ہے لہذا عدالت وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے سربراہ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام اور وفاقی وزارت داخلہ کے سیکرٹری سے اس ضمن میں جواب طلب کرے۔
طالب رضا کا کہنا تھا کہ فریق بنانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ثمر عباس کی گمشدگی میں ان کا کوئی عمل دخل ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بااختیار حکام متعلقہ اداروں سے گمشدہ کارکن سے متعلق معلومات حاصل کر کے بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔