پاکستان کرکٹ ٹیم نے جہاں کئی ورلڈ کلاس کھلاڑی پیدا کیے ہیں، وہیں کچھ ایسے بھی ستاروں نے قومی ٹیم کی نمائندگی کی جن کے کیریئر پر اُن کی نادانی کی وجہ سے سوال اُٹھتے رہے ہیں۔
کچھ کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ ثابت ہوئی۔ کچھ کو شک کی وجہ سے چھوٹ ملی لیکن کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے انٹرنیشنل کیریئر کے دوران ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جن کی مثال نہیں ملتی۔
نوے کی دہائی کو پاکستان کی کرکٹ کا سنہری لیکن داغ دار دور کہا جاتا ہے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان ٹیم نے جہاں ورلڈ کپ ٹائٹل اپنے نام کیا وہیں بہت سے کھلاڑی تنازعات کی زد میں رہے۔
پاکستان کے لیے کھیلنے والے ایسے ہی اسکواڈ کا یہاں انتخاب کیا گیا ہے جو اپنے متنازع اقدامات اور حرکتوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہے یا کرکٹ سے ہی دور کر دیے گئے۔
ان کھلاڑیوں میں کئی ایسے نام بھی شامل ہیں جو کئی عرصے تک ٹیم کی قیادت بھی کرتے رہے۔ کچھ نے تو ٹیم میں مختصر وقت ہی گزارا اور کچھ ٹیم سے آؤٹ ہونے کے باوجود اپنے معاملات ٹھیک نہ کر سکے۔
پندرہ رکنی اسکواڈ میں اوپنرز، مڈل آرڈر، وکٹ کیپر اور فاسٹ و اسپن کا کمبینیشن بھی ہے۔ اس کے علاوہ ایک کوچ بھی اسکواڈ میں شامل ہیں۔
1۔ وسیم اکرم (سابق کپتان)
وسیم اکرم کا شمار دنیا کے بہترین فاسٹ بالرز میں ہوتا ہے۔ بحیثیت آل راؤنڈر وہ پاکستان کے لیے ورلڈ کپ فائنل سمیت کئی میچز میں شان دار کارکردگی دکھا چکے ہیں۔ لیکن ان کے کیریئر میں کئی ایسے موڑ بھی آئے جنہیں بھلانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔
سنہ 1993 میں دورۂ ویسٹ انڈیز کے دوران کپتان وسیم اکرم، نائب کپتان وقار یونس، عاقب جاوید اور مشتاق احمد ساحلِ سمندر پر نشے کی حالت میں پائے گئے تھے۔
تین سال بعد بھارت کے خلاف ورلڈ کپ کوارٹر فائنل سے قبل ان کا اچانک میچ سے دستبردار ہونا، شارجہ میں کھیلے گئے پہلے ڈے نائٹ ٹورنامنٹ کے دوران 19 گیندوں پر اس وقت چار رنز بنانا جب پاکستان ٹیم جیت کے قریب تھی اور سب سے بڑھ کر 1999 ورلڈ کپ میں پہلے بنگلہ دیش کے خلاف شکست پھر فائنل میں آسٹریلیا کے سامنے سرینڈر۔ یہ سب واقعات وسیم اکرم کے شان دار کیریئر پر سوالیہ نشان ہیں۔
2۔ شاہد آفریدی (سابق کپتان)
کرکٹ کے بوم بوم آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے بیٹنگ کے کئی ریکارڈز بنائے اور بالنگ کے شعبے میں بھی وہ نمایاں رہے۔ ان کا شمار پاکستان کے ان فیلڈرز میں ہوتا ہے جن کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود شاہد آفریدی کے چند کارنامے ایسے ہیں جن کی مثال کرکٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
انگلینڈ کے خلاف فیصل آباد ٹیسٹ کے دوران پچ ٹیمپر کرنے سے لے کر پرتھ میں دوران میچ شائقین کے سامنے بال چبانے تک، شاہد آفریدی وہ سب کچھ کر چکے ہیں جو کرکٹ کو جینٹل مین گیم کہنے والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔
جنوبی افریقہ میں اسٹیڈیم میں موجود تماشائی کی پٹائی کو لوگ بھول جاتے، اگر وہ کراچی ایئرپورٹ پر فینز پر حملہ آور نہ ہوتے۔
شاہد آفریدی اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے بھی مشہور رہے ہیں۔ اپنے کیریئر کے دوران وہ پاکستان میں ٹیلنٹ نہ ہونے کا شکوہ کرتے رہے ہیں اور خواتین کو کچن تک محدود رکھنے کے بیانات کی وجہ سے بھی وہ ہدفِ تنقید رہے۔
دورانِ سیریز بلاوجہ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے اور "بھارت میں پاکستان سے زیادہ پیار" پانے والے اپنے بیان پر بھی ان پر کڑی تنقید ہوئی تھی۔
3۔ سلمان بٹ (سابق کپتان)
سنہ 2010 سے پہلے سلمان بٹ کو سعید انور کا جانشین کہا جاتا تھا۔ ان کے شاٹس میں کلاس تھی۔ بھارت کے خلاف انہوں نے سینچریاں اسکور کیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹیسٹ ہو یا ون ڈے، وہ دونوں فارمیٹس کے لیے موزوں تھے۔
سنہ 2009 میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں انہوں نے ڈینئل فلن کا جو کیچ چھوڑا تھا، بعض لوگوں کے خیال میں تو وہی عقل مندوں کے لیے ایک اشارہ تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
انگلینڈ کے خلاف سیریز کے دوران جس وقت اُنہیں کپتان بنای گیاا، وہ نہ صرف کم عمر ترین بلکہ ذہین ترین کھلاڑی سمجھے جاتے تھے جنہیں انگریزی پر تو کمال حاصل تھا، ساتھ ہی ساتھ ان کا کھیل کامیابی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
لیکن اسی دورے پر انہوں نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ اسپاٹ فکسنگ کی وجہ سے ان پر کھیل کے دروازے بند ہوئے۔ خود تو جرم کیا ہی، ساتھ ساتھ پاکستان کے قابلِ اعتبار فاسٹ بالنگ پیئر محمد عامر اور محمد آصف کو بھی لے ڈوبے۔
اُن کی اس حرکت سے پاکستان کرکٹ کو جو نقصان ہوا، اس کا ازالہ آج تک نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ اپنے جرم کی سزا کاٹنے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر ٹیم میں واپسی کے خواہش مند ہیں۔
4۔ احمد شہزاد (اوپنر)
دنیا میں چند ہی ایسے کرکٹرز ہیں جن کے آؤٹ ہونے پر خوش ہونے والوں کی تعداد زیادہ اور غمگین ہونے والوں کی کم ہوتی ہے۔
پاکستان میں یہ اعزاز احمد شہزاد کو حاصل ہے جنہوں نے کئی سال پاکستان کی نمائندگی کی۔ تینوں فارمیٹس میں سینچریاں بھی اسکور کیں لیکن آج بھی جب وہ بیٹنگ کرنے جاتے ہیں تو نمبر تین پر آنے والا بیٹسمین تیار ہوتا ہے کہ باری اب بس آنے ہی والی ہے۔
حال ہی میں ایک انٹرویو میں مسلسل ناکام ہونے والے احمد شہزاد کا کہنا تھا کہ وہ مزید 10 سال تک ملک کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ یہ بتانا وہ بھول گئے کہ ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب وہ خراب کارکردگی پر شرمندہ ہوں گے اور انجرڈ ہونے کا "ڈراما" نہیں کریں گے، سینئر کھلاڑی خاص طور پر دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں سے کم الجھیں گے اور دوسروں کے مذہب پر بحث سے پہلے بار بار سوچیں گے۔
احمد شہزاد کو دوبارہ ٹیم میں آنے کے لیے یہ دعا کرنا ہو گی کہ فخر زمان جیسا کوئی ان سے بہتر کھلاڑی ٹیم میں نہ آئے۔ اگر آ بھی جائے تو اس کی کارکردگی اُن سے بہتر نہ ہو۔
5۔ ناصر جمشید (سابق اوپنر)
کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں ایک ایسا کھلاڑی بھی گزرا ہے جس نے امتحانات میں نقل کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزارا ہے؟
اس کھلاڑی کا نام ناصر جمشید ہے اور انہیں میٹرک کے امتحانات میں یہ کارنامہ انجام دینے پر حوالات جانا پڑا تھا۔
آج کل وہ انگلینڈ میں مقیم ہیں اور ایک بار پھر کال کوٹھڑی اُن کا ٹھکانہ ہے۔ اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں وہ 17 ماہ کی قید کاٹ رہے ہیں اور ابھی اس قید کو صرف دو مہینے گزرے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ میں اسپاٹ فکسنگ کرنے اور دوسرے کھلاڑیوں کو اکسانے کی وجہ سے ان پر پاکستان اور انگلینڈ سمیت دنیا بھر میں کرکٹ سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔
ناصر جمشید کے کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ بار بار رن آؤٹ ہونا یا ساتھی کھلاڑی کو رن آؤٹ کرانا، آسان سے آسان کیچ گرا دینا، اہم میچوں میں رنز نہ بنانا، یہ سب ناصر جمشید ہی کے کارنامے تھے جن کے باوجود اُنہیں مسلسل ٹیم میں سلیکٹ کیا جاتا رہا۔
ناصر جمشید نے اپنے آٹھ سالہ کیریئر میں 68 مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کی۔
6۔ اعجاز احمد (سابق اوپنر)
سب سے انوکھے انداز میں کون سا کھلاڑی آؤٹ ہوتا تھا کہ آؤٹ بھی ہو جائے اور سامنے والے کی تعریف بھی؟ جی ہاں یہ وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے ہر دورے کے آخری میچ میں سینچری بنا کر اپنی جگہ ٹیم میں برقرار رکھی۔
بہترین فیلڈر ہونے کے باوجود بلائنڈ کرکٹرز کی طرح رن آؤٹ ہونا اور ایک بار تو 99 کے اسکور پر میچ ختم ہونے کے بعد بھی بیٹنگ کے لیے تیار ہونا، وہ تو امپائر کے بتانے پر کہ میچ ختم ہو گیا ہے انہیں میدان چھوڑ کر جانا پڑا۔ وہ کھلاڑی اعجاز احمد ہیں۔
اپنے کیریئر کے دوران کئی مواقع پر اعجاز احمد نے ایسے ایسے طریقوں سے اپنی وکٹ گنوائی کہ مخالف ٹیم بھی حیران رہ گئی۔
اعجاز احمد کھیلنے پر آئے تو آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہو گئے اور جب نہ کھیلنے پر آئے تو ایسے بالر کی گیند پر آؤٹ ہوئے جنہیں خود بھی اپنی بالنگ پر اعتبار نہ تھا۔
میچ فکسنگ اسکینڈل میں ان کا نام بھی آیا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان الزامات پر زیادہ کان نہیں دھرے۔ آج کل اعجاز احمد کو پی سی بی نے جونیئر کھلاڑیوں کو کرکٹ سکھانے کے کام پر مامور کیا ہوا ہے۔
7۔ سلیم ملک (سابق کپتان)
پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی، کلکتہ کے میدان پر بھارت کو اس کے شائقین کے سامنے شکست دینے والے اور 1992 ورلڈ کپ کی وننگ ٹیم کے رکن سلیم ملک اگر جاوید میانداد کے ساتھ ریٹائر ہوجاتے تو کتنا اچھا ہوتا اور ان کا نام کرکٹ کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جاتا۔
سلیم ملک اگر مذکورہ فیصلہ کر لیتے تو آج کسی فرنچائز ٹیم کے کوچ ہوتے اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے منسلک ہوتے۔
لیکن پہلے سنگر کپ کے میچ میں، پھر پاکستان آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز میں اور پھر زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی مشکوک کارکردگی نے ان کے ساتھی کھلاڑیوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
مشکوک سرگرمیوں اور ان سب الزامات کے باوجود سابق کپتان نے نہ صرف کئی میچز میں پاکستان کو فتح دلائی، بلکہ اپنے 100 ٹیسٹ میچز بھی مکمل کیے۔
آج کل وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے معافی کے طلب گار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب باقی سب کھلاڑی جو ان کے ساتھ ہر ہار اور جیت میں شامل تھے، بورڈ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟
سلیم ملک کی بات میں دم تو ہے لیکن اُن کا ماضی اور اس پر لگے داغ، ان کے حال اور مستقبل کی خوش حالی میں حائل ہیں۔
8۔ عمر اکمل (بلے باز)
کرکٹ کے حلقوں میں عمر اکمل کو بے پناہ ٹیلنٹ کا حامل ایک احمق کھلاڑی تصور کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا کھلاڑی جسے نہ تو اپنے ٹیلنٹ کی قدر تھی اور نہ ہی ٹیم میں جگہ کی پرواہ۔
ٹیسٹ کیریئر کے پہلے میچ میں سینچری بنانے والے اس کرکٹر کو صرف دو سال بعد ہی پانچ روزہ کرکٹ سے اس وقت کے ہیڈ کوچ محسن خان نے صرف اس لیے بے دخل کیا کیوں کہ ان کے خیال میں اس کھلاڑی میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی تمیز ہی نہیں تھی۔
سنہ 2010 میں دورۂ آسٹریلیا پر اپنے بڑے بھائی کامران اکمل کی جگہ وکٹ کیپنگ کرنے کے فیصلے کو نہ ماننا اور خود کو انجرڈ ظاہر کرنا، یہیں سے ان کا زوال شروع ہوا۔
اس دورے کے اختتام پر میڈیا سے بلا اجازت بات کرنے پر ان پر پہلا جرمانہ ہوا۔ اس کے بعد جرمانوں کی لائن لگ گئی۔ کئی اہم میچز میں پرفارم نہ کرنا ان کا وتیرہ بن گیا۔
وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات میں بیٹنگ آرڈر کی تبدیلی کا رونا، کوچ مکی آرتھر کے خلاف میڈیا پر بات کرنا، دوران میچ امپائرز کی بات نہ ماننا، وکٹ کیپنگ کے دوران ایسے کیچز گرانا جو شاید کوئی بھی کیپر نہ گرائے۔
پولیس والوں سے بدتمیزی، سوشل میڈیا پر بے تکی تصویریں پوسٹ کرنا، بلا اجازت پارٹیوں اور کانسرٹس میں شرکت، تھیٹر ڈرامے میں ہنگامہ آرائی، ساتھی کھلاڑیوں کے خلاف بیان بازی، بار بار میچ فکسنگ کی آفر کا ذکر آئی سی سی اور پی سی بی سے نہ کرنا۔ یہ تمام باتیں وہ ہیں جو بے فکر عمر اکمل اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران کر گزرے ہیں۔
8۔ کامران اکمل (سابق وکٹ کیپر بلے باز)
کامران اکمل نے اپنے کیریئر کے دوران اتنے کیچز پکڑے نہیں جتنے گرائے ہیں۔ اگر کسی کو یقین نہ آئے تو شعیب اختر اور دانش کنیریا سے رابطہ کرے جن کی گیندوں پر کامران اکمل نے اپنا یہ کمال دکھایا۔
وکٹ کے پیچھے ان کی کارکردگی اتنی مایوس کن تھی کہ جب پہلے ذوالقرنین اور پھر سرفراز احمد نے ان کی جگہ وکٹ کیپنگ کی تو شائقین کرکٹ نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ ویلکم کیا۔
آج بھی کامران اکمل کیچ گراتے ہیں تو یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے غلطی بال کی تھی جو وہ ان کے پاس نہ آئی، ورنہ کوشش تو انہوں نے بھرپور کی تھی۔
سنہ 2010 کے مشہورِ زمانہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں جتنا مرکزی کردار سلمان بٹ کا تھا، اتنا ہی کامران اکمل کا بھی۔ کیوں کہ مظہر مجید سے کھلاڑیوں کی مبینہ ملاقات انہوں نے کرائی تھی۔
سڈنی ٹیسٹ میں ان کی ناقص کیپنگ کی گونج آئی سی سی تک پہنچی اور اُنہیں شاملِ تفتیش کیا گیا۔ اس میچ میں انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ چار کیچز ڈراپ کیے اور پاکستان کے ہاتھ سے میچ جیتنے کا سنہری موقع چلا گیا۔
اس کے بعد 2011 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں انہوں نے مسلسل دو گیندوں پر راس ٹیلر کا کیچ گرایا۔ جس پر بالر شعیب اختر نے خوب برا منایا۔ بہت سے کرکٹ ماہرین کے خیال میں کامران اکمل نے ان دونوں گیندوں پر کیچ پکڑنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سلیکٹرز نے ان کی جگہ نان ریگولر عمر اکمل سے کیپنگ کا تجربہ کیا۔
عمر اکمل کی کارکردگی بڑے بھائی سے بہتر صرف اس طرح تھی کہ ان کا کیچ گرانے کا تناسب کم تھا۔ شاید بالرز نے طے کر لیا تھا کہ اگر وکٹ کے پیچھے کوئی 'اکمل' ہو گا تو یارکر پر انحصار کریں گے تاکہ صدمے سے کم دو چار ہوں۔
9۔ عبدالرحمان (لیفٹ آرم اسپنر)
اور اب بات آتی ہے بالرز کی۔ عبدالرحمان کا نام جب بھی کرکٹ سے متعلق بحث مباحثے میں آئے گا تو دو چیزیں ضرور سامنے آئیں گی۔ ایک ان کے ٹیسٹ کرکٹ میں 99 شکار اور دوسرا ون ڈے میں ان کی مسلسل تین نو بالز۔
اس سے قبل ان کی وجۂ شہرت سنہ 2012 میں کاؤنٹی سیزن کے دوران ممنوعہ ادویات کے استعمال پر 12 ماہ کھیل سے دوری تھی۔
سنہ 2014 میں بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں تین مسلسل بیمرز ان کے کیریئر کو لے ڈوبیں۔ یہ تین گیندیں انہوں نے کسی منصوبہ بندی کے تحت کیں یا فکسنگ کے تحت۔ یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن اس کے بعد یہ حماقت انٹرنیشنل کرکٹ میں کسی بھی کھلاڑی نے نہیں کی۔
اس میچ میں جو عبدالرحمان پر پابندی لگی، اس کے بعد سے وہ ون ڈے کرکٹ میں واپس نہیں آ سکے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی وہ ان کا آخری سال ہی ثابت ہوا۔
10۔ عطا الرحمان (سابق فاسٹ بالر)
ایک ہوتا ہے فاسٹ بالر جسے یہ پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلی گیند پر کیا کرنا ہے۔ اور ایک ہوتا ہے عطا الرحمان جس نے چار سال انٹرنیشنل کرکٹ تو کھیل لی لیکن انہیں آج تک نہیں پتا چلا کہ جب بال ان کے ہاتھ سے نکلے گی تو کہاں جائے گی؟
اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ جسٹس قیوم کمیشن کے سامنے اپنے سابق کپتان وسیم اکرم کے خلاف بیان دینے کے بعد وہ اس سے پھر گئے اور اب 20 سال بعد پھر سابق کپتان کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
عطا الرحمان کے بیان کی وجہ سے ہی وسیم اکرم کا کیس مضبوط ہوا اور وہ پابندی سے بچ گئے۔
11۔ وہاب ریاض (فاسٹ بالر)
سنہ 2010 میں جب اسپاٹ فکسنگ کے طوفان نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا، تو ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں ایک کھلاڑی مظہر مجید کی جیکٹ پہنتے ہوئے نظر آیا تھا۔
یہ نہ تو محمد عامر تھا، محمد آصف اور نہ ہی کپتان سلمان بٹ۔ بلکہ اس کھلاڑی کا نام تھا وہاب ریاض۔
اس اسکینڈل میں جہاں عمر اکمل، کامران اکمل اور ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کو اس واقعے کے بعد کلین چٹ ملی، وہیں وہاب ریاض کو بھی باعزت بری کیا گیا۔ پھر کیا تھا، ورلڈ کپ 2011 کے سیمی فائنل اور چار سال بعد شین واٹسن کے خلاف تباہ کن بالنگ کے علاوہ انہوں نے کوئی کارنامہ سر انجام ہی نہیں دیا۔
یہ دونوں میچز بھی پاکستان ٹیم ہاری۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں 31 ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وہاب ریاض 21 میچز میں سات رنز فی اوور کی اوسط سے پٹے۔ 89 ون ڈے میچز میں سے 34 اننگز میں انہوں نے چھ رنز یا اس سے زیادہ کی اوسط سے مار کھائی۔
ون ڈے کرکٹ میں سب سے زیادہ 110 رنز دینے کا پاکستانی ریکارڈ بھی انہی کے پاس ہے۔ اپنے 10 سالہ ٹیسٹ کیریئر میں موصوف نے صرف دو مرتبہ پانچ وکٹیں حاصل کرنے کا سنگِ میل عبور کیا ہے۔ البتہ ایک ساتھ مسلسل پانچ ڈیڈ بالز کرنے پر ان کا نام ہمیشہ کرکٹ ریکارڈز کی زینت بنا رہے گا۔
12۔ محمد آصف (سابق میڈیم پیسر)
دنیائے کرکٹ کے بڑے نام سچن ٹنڈولکر ہوں، وریندر سہواگ ہوں، وی وی ایس لکشمن ہوں یا کیون پیٹرسن۔ یہ تمام ورلڈ کلاس بلے باز اگر کسی بالر سے ڈرتے تو وہ محمد آصف تھے۔
لیکن محمد آصف اپنے متنازع اور سنگین غلطیوں کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے کرکٹ سے دور ہو گئے ہیں۔
اداکارہ وینا ملک سے محبت اور نفرت کی داستان ہو یا والٹ میں ممنوعہ ادویات لے کر دبئی ایئر پورٹ پہنچ جانا۔ پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل شاہد آفریدی کے کہنے پر شعیب اختر کو اکسانا اور پھر راولپنڈی ایکسپریس سے بیٹ کھانا، پھر اپنے کپتان کی باتوں میں آ کر ایک نو بال کرنا ہو، ہر قسم کی معصومیت اس کرکٹر پر ختم ہے۔
سنہ 2007 ورلڈ کپ کی ٹیم کے اعلان سے قبل بورڈ کا شعیب اختر اور محمد آصف کو ڈراپ کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ آفیشل وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ دونوں کھلاڑی مکمل فٹ نہیں تھے۔ لیکن شائقین کا ماننا ہے کہ دال میں کچھ کالا تھا۔ جو بھی ہو محمد آصف کو اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے پر سات سال کی سزا ہوئی اور وہ آج بھی اس بات پر خوش ہیں کہ "وہ کل بھی بھوکے نہیں مر رہے تھے اور آگے بھی بھوکے نہیں مریں گے۔"
13۔ محمد عامر (فاسٹ بالر)
محمد عامر نے جب انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھا تو ان کا موازنہ وسیم اکرم سے کیا جانے لگا تھا۔ سنہ 2009 میں جس ٹیم نے پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا چیمپئن بنایا اس میں محمد عامر شامل تھے۔
عامر نے محمد آصف کے ساتھ فاسٹ بالنگ پیئر بنایا اور دنیا بھر سے تعریفیں سمیٹیں۔ لیکن وسیم اکرم اور ان میں ایک فرق رہ گیا۔ سابق کپتان نے جب بھی ٹیسٹ ٹیم کے ساتھ انگلینڈ کا دورہ کیا۔ انہوں اپنی کارکردگی سے نہ صرف سیریز جیتی بلکہ شائقین سے داد بھی سمیٹی۔
محمد عامر نے اسی انگلینڈ کے خلاف اسپاٹ فکسنگ کی اور انہیں باقی دونوں کھلاڑیوں کی طرح سزا بھی ہوئی۔ وہ ان تینوں کرکٹرز میں سے واحد کھلاڑی تھے جن کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ممکن ہوئی ہے۔
اس سب کے بعد تو محمد عامر کو پی سی بی کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے تو ٹیسٹ کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کر کے شائقین کا دل توڑنا بہتر سمجھا۔
چیمپیئز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کے خلاف ان کی بالنگ نے پاکستان کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت وہ اسی انگلینڈ میں مقیم ہیں جہاں ان کے کیریئر کی پہلی اننگز ختم ہوئی تھی اور پاکستان ٹیم ان کے بغیر ہی اپنے سفر پر گامزن ہے۔
14۔ ذوالقرنین حیدر (سابق وکٹ کیپر)
پاکستان کرکٹ ٹیم میں کئی کھلاڑی آئے جنہوں نے اتار چڑھاؤ دیکھا۔ لیکن جتنی جلدی ذوالقرنین حیدر اوپر سے نیچے گئے اس کی مثال نہیں ملتی۔
انگلینڈ کے خلاف اسپاٹ فکسنگ سیریز کے دوران انہوں نے ڈیبیو کیا اور پہلے ہی میچ میں 88 رنز کی اننگز کھیل کر کامران اکمل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی۔
اس کے کچھ ماہ بعد جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں انہوں نے وننگ رنز بنا کر اپنی جگہ ٹیم میں پکی کی۔ ایسے میں ان کا اچانک انگلینڈ بھاگ جانا اور وہاں جا کر بیان دینا کہ انہوں نے ساتھی کھلاڑیوں کی دھمکی، میچ فکسرز سے دور رہنے کے لیے اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے یہ قدم اٹھایا، عجیب سی بات تھی۔ انگلینڈ میں جب کسی نے انہیں لفٹ نہ کرائی تو پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک کی گارنٹی پر وہ واپس پاکستان آئے۔
ذوالقرنین جب واپس پاکستان آئے تب تک دوسرے کیپرز ٹیم میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ جب سرفراز احمد کو ٹیم کا کپتان بنایا گیا تو تمام سابق وکٹ کیپرز کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے تقریباً بند ہی ہو گئے۔
ذوالقرنین حیدر نے اپنے پیر پر کلہاڑی نہیں ماری بلکہ خود ہی اپنا پیر کلہاڑی پر مار کر اپنے کیریئر کا خاتمہ کیا۔
پاکستان کے اس متنازع اسکواڈ کے لیے ان سے اچھا ریزرو وکٹ کیپر اور کون ہو سکتا ہے؟
15۔ انتخاب عالم (سابق کپتان و کوچ)
نوے کی دہائی میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم پر میچ فکسنگ کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی تھیں تو اس وقت ایک نام پاکستان کرکٹ سے مسلسل جڑا ہوا تھا۔ یہ نام سابق کپتان انتخاب عالم کا تھا جنہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی بعض حلقوں کے بقول کچھ نہیں کیا۔
جب تک راشد لطیف اور باسط علی نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ نہیں لی، انتخاب عالم نے "سب سیٹ ہے" کی رٹ لگائے رکھی۔
اپنے زمانے کے سب سے دفاعی مائنڈ سیٹ والے کپتان سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی تھی؟ کاش پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس وقت جب پاکستانی کھلاڑی ملک کا نام بدنام کر رہے تھے، کسی مضبوط آدمی کو مینیجر نامزد کیا ہوتا تو آج پاکستان کرکٹ ٹیم اس سے بھی اونچے مقام پر ہوتی۔ اس متنازع ٹیم کے مینیجر کی پوزیشن کے لیے انتخاب عالم سے اچھا کوئی امیدوار نہیں ہوسکتا۔