پاکستان کے زیرانتطام کشمیر کی وادی نیلم میں واقع ایک بلند چوٹی کو سر کرنے کی مہم میں شامل، تین لاپتا کوہ پماؤں کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
اُن کی تلاش کے لیے جاری مہم بھی ختم کر دی گئی ہے جس کے بعد اُن کے زندہ ملنے کے امکانات اور بھی کم ہو گئے ہیں۔ اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ برفانی تودے کی زد میں آ کر کسی گہری کھائی میں گر گئے۔
یہ کوہ پیما 31 اگست کو اس وقت لاپتا ہو گئے تھے جب ان کا اپنے بیس کیمپ سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔
لاپتا ہونے والے تینوں کوہ پیما پاکستانی ہیں اور ان کا تعلق ایک مقامی کلب آئبکس سے بتایا جاتا ہے۔ اس کلب کی پانچ رکنی ٹیم نے گزشتہ ماہ وادی نیلم کی تقریباً چھ ہزار تین سو میٹر بلند سراوالی چوٹی کو سر کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ لیکن دو کوہ پیما بیس کیمپ پر ہی تھے۔
لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کا کام تو فوری طور پر شروع کر دیا گیا تھا لیکن بعد میں کوہ پیماؤں کی ایک بڑی نمائندہ تنظیم الپائن کلب سے رابطہ کیا گیا جس نے فوج کی مدد سے تلاش کا کام شروع کیا، لیکن رواں ہفتے تازہ برف باری کے آغاز کے بعد یہ عمل روک دیا گیا۔
پاکستان الپائن کلب کے ترجمان قرار حیدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تلاش کے کام میں ملک کے ایک معروف کوہ پیما حسن سد پارہ کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں کوہ پیماؤں میں کافی مقبول ہیں اور ہر سال بڑی تعداد میں غیر ملکی کوہ پیما ان کو سر کرنے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ جب کہ مقامی کوہ پیما بھی ایسی مہمات میں شامل ہوتے ہیں۔
بلند پہاڑی چوٹیوں کے سر کرنے کی مہم کے دوران اس بات کے امکانات ہوتے ہیں کہ کوہ پیما برفانی تودوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔
قرار حیدری کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی کی مہم پر جانے والوں کے پاس جہاں مناسب مواصلاتی سامان ہونا ضروری ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ باقاعدہ تربیت کے بغیر کسی مہم کا حصہ نا بنیں۔