واشنگٹن —
پاکستان میں حکام نے کہا ہے کہ شمالی علاقے میں ایک چوٹی سر کرتے ہوئے لاپتہ ہوجانے والے پولینڈ کے دو کوہ پیمائوں کا تاحال پتا نہیں چل سکا ہے۔
حکام کے مطابق چار پولش کوہ پیمائوں کی ایک ٹیم نے منگل کو 8047 میٹر بلند 'براڈ پیک' نامی چوٹی کو موسمِ سرما میں پہلی بار سر کیا تھا۔
تاہم چوٹی سے واپسی کے سفر میں ٹیم کے دو ارکان – ٹوماز کولسکی اور مسیج بربیکا لاپتہ ہوگئے تھے جب کہ ٹیم کے باقی دو ارکان بحفاظت 'بیس کیمپ' پہنچ گئے تھے۔
کوہ پیمائی کی پاکستانی ادارے 'الپائن کلب' کے ترجمان کرار حیدری کے مطابق چاروں پولش کوہ پیما چوٹی سر کرنے کے دوران میں بہت تھک چکے تھے کیوں کہ سردیوں میں 'براڈ پیک' کو سر کرنا ان کے بقول ایک "ناقابلِ یقین مہم" ہے۔
کراری حیدری کے مطابق 'براڈ پیک' پر پہنچنے والے کوہ پیمائوں کو فوراً ہی اور دگنی رفتار سے واپسی کا سفر کرنا پڑتا ہے جس میں ذرا سے تاخیر موت کے منہ میں لے جاسکتی ہے۔
چوٹی سر کرنے والی پولش ٹیم کے سربراہ آرتر ہیجزر نے اپنے گمشدہ ساتھیوں کا سراغ ملنے کے بارے میں ناامیدی ظاہر کی ہے۔
پولینڈ کے ایک نیوز چینل سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گمشدہ کوہ پیمائوں کے ملنے کے امکانات تیزی سے کم ہورہے ہیں اور ان کے زندہ بچنے کی امید ختم ہورہی ہے۔
ہیجزر کے مطابق لاپتا کوہ پیمائوں کو ڈھونڈنے کے لیے ایک پاکستانی کوہ پیما بھی چوٹی پر گیا تھا جہاں اس وقت درجہ حرارت منفی 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہے ۔
انہوں نے کہا کہ چوٹی پر جمعرات کو برفانی طوفان متوقع ہے جس کے باعث لاپتہ کوہ پیمائوں کی تلاش کا وقت کم رہ گیا ہے۔
'الپائن کلب' کے ترجمان کرار حیدری کے مطابق پولش کوہ پیمائوں کو ڈھونڈنے کے لیے کئی ٹیمیں چوٹی کی جانب روانہ کردی گئی ہیں۔
واپس آنے والے پولش کوہ پیمائوں نے بتایا ہے کہ انہیں اپنی مہم کے دوران میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ چوٹی سر کرنے کے لیے سازگار موسم کے انتظار میں انتہائی سخت سردی اور طوفانی ہوائوں کے باوجود ایک ماہ تک پہاڑ پر ٹہرے رہے۔
حکام کے مطابق چار پولش کوہ پیمائوں کی ایک ٹیم نے منگل کو 8047 میٹر بلند 'براڈ پیک' نامی چوٹی کو موسمِ سرما میں پہلی بار سر کیا تھا۔
تاہم چوٹی سے واپسی کے سفر میں ٹیم کے دو ارکان – ٹوماز کولسکی اور مسیج بربیکا لاپتہ ہوگئے تھے جب کہ ٹیم کے باقی دو ارکان بحفاظت 'بیس کیمپ' پہنچ گئے تھے۔
کوہ پیمائی کی پاکستانی ادارے 'الپائن کلب' کے ترجمان کرار حیدری کے مطابق چاروں پولش کوہ پیما چوٹی سر کرنے کے دوران میں بہت تھک چکے تھے کیوں کہ سردیوں میں 'براڈ پیک' کو سر کرنا ان کے بقول ایک "ناقابلِ یقین مہم" ہے۔
کراری حیدری کے مطابق 'براڈ پیک' پر پہنچنے والے کوہ پیمائوں کو فوراً ہی اور دگنی رفتار سے واپسی کا سفر کرنا پڑتا ہے جس میں ذرا سے تاخیر موت کے منہ میں لے جاسکتی ہے۔
چوٹی سر کرنے والی پولش ٹیم کے سربراہ آرتر ہیجزر نے اپنے گمشدہ ساتھیوں کا سراغ ملنے کے بارے میں ناامیدی ظاہر کی ہے۔
پولینڈ کے ایک نیوز چینل سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گمشدہ کوہ پیمائوں کے ملنے کے امکانات تیزی سے کم ہورہے ہیں اور ان کے زندہ بچنے کی امید ختم ہورہی ہے۔
ہیجزر کے مطابق لاپتا کوہ پیمائوں کو ڈھونڈنے کے لیے ایک پاکستانی کوہ پیما بھی چوٹی پر گیا تھا جہاں اس وقت درجہ حرارت منفی 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہے ۔
انہوں نے کہا کہ چوٹی پر جمعرات کو برفانی طوفان متوقع ہے جس کے باعث لاپتہ کوہ پیمائوں کی تلاش کا وقت کم رہ گیا ہے۔
'الپائن کلب' کے ترجمان کرار حیدری کے مطابق پولش کوہ پیمائوں کو ڈھونڈنے کے لیے کئی ٹیمیں چوٹی کی جانب روانہ کردی گئی ہیں۔
واپس آنے والے پولش کوہ پیمائوں نے بتایا ہے کہ انہیں اپنی مہم کے دوران میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ چوٹی سر کرنے کے لیے سازگار موسم کے انتظار میں انتہائی سخت سردی اور طوفانی ہوائوں کے باوجود ایک ماہ تک پہاڑ پر ٹہرے رہے۔