گزشتہ ماہ شمالی علاقے گلگت بلتستان میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے دس غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ان کوہ پیماؤں کی پاکستان آمد کو سیاحت اور کوہ پیمائی کے لیے اچھا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد —
سلواکیہ سے تعلق رکھنے کوہ پیماؤں کا ایک گروپ پاکستان کے شمالی علاقے میں مہم جوئی کے لیے پہنچا ہے جو سات ہزار میٹر سے زائد بلند دیران چوٹی سر کرے گا۔
گزشتہ ماہ شمالی علاقے گلگت بلتستان میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے دس غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ان کوہ پیماؤں کی پاکستان آمد کو سیاحت اور کوہ پیمائی کے لیے اچھا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں کوہ پیمائی کے فروغ کے لیے کام کرنے والی نمائندہ تنظیم الپائن کے ترجمان کرار حیدری نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ ماہ گلگت بلتستان ہی میں غیر ملکی سیاحوں پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سلواکیہ کے دو باشندے بھی شامل تھے اور اس تناظر میں اس گروپ کے ارکان نے کچھ پریشانی کا اظہار کیا تھا۔
تاہم ان کے بقول سلواکیہ کے کوہ پیماؤں کو گلگت بلتستان کی حکومت کی طرف سے مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
’’انھیں خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کی حکومت کی طرف سے پروٹوکول اور سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور بیس کیمپ پر ان کے ساتھ مستقبل محافظ بھی رہیں گے۔‘‘
22 جون کی رات کو دیا میر میں نانگا پربت کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے دس غیر ملکی سیاحوں سمیت گیارہ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ان میں چین، سلواکیہ، یوکرائن، چینی نژاد امریکی اور نیپال کے باشندے شامل تھے۔
کرار حیدری نے بتایا کہ نانگا پربت کے بیس کیمپ پر پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعے کے بعد ان غیر ملکیوں کی پاکستان آمد ملک کی سیاحت اور کوہ پیمائی کے شعبے کے لیے بہت حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔
’’ اب لوگ آنا شروع ہو رہے ہیں اور وہ جو ایک خلل آیا تھا اُس واقعے کے بعد تو اب لوگوں نے دوبارہ رابطہ شروع کر دیا ہے،(مہم جوئی کے لیے) معلومات حاصل کررہے ہیں۔‘‘
ہنزہ نگر میں واقع دیران دنیا کی ایک مشہور اور مشکل چوٹی ہے جسے 1962ء میں آسٹریا کے ایک کوہ پیما گوشال نے سر کیا تھا۔ کرار حیدری کے بقول اس کے بعد سے یہ چوٹی ابھی تک کوئی سر نہیں کر سکا اور اس مہم جوئی کے لیے اب سلواکیہ کے کوہ پیما یہاں آئے ہیں۔
گزشتہ ماہ شمالی علاقے گلگت بلتستان میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے دس غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ان کوہ پیماؤں کی پاکستان آمد کو سیاحت اور کوہ پیمائی کے لیے اچھا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں کوہ پیمائی کے فروغ کے لیے کام کرنے والی نمائندہ تنظیم الپائن کے ترجمان کرار حیدری نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ ماہ گلگت بلتستان ہی میں غیر ملکی سیاحوں پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سلواکیہ کے دو باشندے بھی شامل تھے اور اس تناظر میں اس گروپ کے ارکان نے کچھ پریشانی کا اظہار کیا تھا۔
تاہم ان کے بقول سلواکیہ کے کوہ پیماؤں کو گلگت بلتستان کی حکومت کی طرف سے مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
’’انھیں خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کی حکومت کی طرف سے پروٹوکول اور سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور بیس کیمپ پر ان کے ساتھ مستقبل محافظ بھی رہیں گے۔‘‘
22 جون کی رات کو دیا میر میں نانگا پربت کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے دس غیر ملکی سیاحوں سمیت گیارہ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ان میں چین، سلواکیہ، یوکرائن، چینی نژاد امریکی اور نیپال کے باشندے شامل تھے۔
کرار حیدری نے بتایا کہ نانگا پربت کے بیس کیمپ پر پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعے کے بعد ان غیر ملکیوں کی پاکستان آمد ملک کی سیاحت اور کوہ پیمائی کے شعبے کے لیے بہت حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔
’’ اب لوگ آنا شروع ہو رہے ہیں اور وہ جو ایک خلل آیا تھا اُس واقعے کے بعد تو اب لوگوں نے دوبارہ رابطہ شروع کر دیا ہے،(مہم جوئی کے لیے) معلومات حاصل کررہے ہیں۔‘‘
ہنزہ نگر میں واقع دیران دنیا کی ایک مشہور اور مشکل چوٹی ہے جسے 1962ء میں آسٹریا کے ایک کوہ پیما گوشال نے سر کیا تھا۔ کرار حیدری کے بقول اس کے بعد سے یہ چوٹی ابھی تک کوئی سر نہیں کر سکا اور اس مہم جوئی کے لیے اب سلواکیہ کے کوہ پیما یہاں آئے ہیں۔