پاکستان نے کہا ہے کہ اپنے ہاں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
یہ بات وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران بتائی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے پر بھارت کے ساتھ ہونے والے اعلیٰ سطحی رابطوں میں بھی بات کر چکا ہے اور اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی وزیراعظم اس بابت توجہ مبذول کروائیں گے۔
"را کی سرگرمیوں کے معاملے کو کئی غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ اٹھایا گیا ہے، اس سال جو پاک بھارت خارجہ سیکرٹریز کی ملاقات ہوئی اس میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ وزیراعظم یہ معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اٹھائیں گے۔"
پاکستان ایک عرصے سے اپنے ہاں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور خصوصاً جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کر کے بدامنی پھیلانے کی ذمہ داری بھارت کی خفیہ ایجنسی پر عائد کرتا آیا ہے لیکن حالیہ مہینوں میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے بھی اس بارے میں برملا بیانات سامنے آچکے ہیں۔
بھارت ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ہاں دہشت گرد واقعات کی ذمہ داری پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی "آئی ایس آئی" اور بعض کالعدم شدت پسند تنظیموں پر عائد کرتا ہے۔
رواں ہفتے ہی سرحدی ضلع گرداس پور میں ہونے والے ایک دہشت گرد حملے کے بعد بھارت کے وزیر داخلہ کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ حملہ آور پاکستان کی طرف سے آئے تھے۔
تاہم پاکستان نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں اگر کوئی شواہد ہوں تو وہ فراہم کیے جائیں۔
سرتاج عزیز نے جمعہ کو ایک بار پھر بھارتی الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ " حکومت پہلے ہی گرداس پور میں دہشت گردی کے حالیہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو مسترد کر چکی ہے۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ پاکستان بھارت کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔"
1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد معرض وجود میں آنے والے پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہی سے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں جن میں کشیدگی غالب رہی ہے۔
حالیہ برسوں خصوصاً گزشتہ ایک سال سے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول اور سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رواں ماہ ہی دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے وزرائے اعظم کی روس کے شہر اوفا میں ملاقات ہوئی تھی جس میں سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے اقدام پر اتفاق کیا گیا لیکن اس کے باوجود دونوں جانب سے نہ صرف فائر بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے بلکہ سیاسی سطح پر ایک بار پھر تلخ بیان بازی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
امریکہ یہ کہتا آیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خطے میں امن و خوشحالی کے لیے بہت اہم ہیں لہذا انھیں اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے باہمی طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔