سابق صدر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ مزار قائد پر ان کے جلسے کے اجازت نامے کو منسوخ کر کے ان کے لیے آغاز ہی سے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردی گئی ہیں لیکن ان کے بقول وہ پورے ملک میں جلسے کریں گے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف لگ بھگ چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد اتوار کو دبئی سے کراچی پہنچ گئے۔
وہ اپریل 2009ء میں بیرون ملک منتقل ہو گئے تھے اور اس دوران ان کا زیادہ تر وقت دبئی اور برطانیہ میں گزرا۔
اتوار کو دبئی سے کراچی آمد پر استقبال کے لیے آنے والے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ وہ تمام خطرات اور دھمکیوں کے باوجود وطن واپس آئے ہیں اور اب یہیں رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج میں شمولیت کے وقت انھوں نے ملک کی حفاظت کی جو قسم کھائی تھی وہ اس پر کاربند رہے اور اب اسی قسم کے تحت وہ پاکستانی عوام کے لیے ملک واپس آئے ہیں۔
’’آج میں اس دھرتی کے حکم پر اس عوام کے حکم پر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر واپس آگیا ہوں۔ ان لوگوں کو سبق سیکھ لینا چاہیئے جو کہتے تھے کہ میں نہیں آؤں گا۔ میں آ گیا ہوں اور اب یہیں رہوں گا اگر آپ لوگوں کا جذبہ ایسا ہی رہا تو ہمیں کامیابی ملے گی۔‘‘
طالبان کی طرف سے ان پر قاتلانہ حملے کے لیے خودکش بمبار بھیجنے کی دھمکی کا ذکر کرتے ہوئے پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ وہ ایسی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ان کی پاکستان آمد کے موقع پر کراچی کے ہوائی اڈے اور اس کے گردونواح میں سکیورٹی کے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اضافی نفری بھی یہاں تعینات کی گئی تھی۔
سابق صدر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ مزار قائد پر ان کے جلسے کے اجازت نامے کو منسوخ کر کے ان کے لیے آغاز ہی سے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دی گئی ہیں لیکن ان کے بقول وہ پورے ملک میں جلسے کریں گے اور ان کی جماعت انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔
پرویز مشرف اس سے قبل بھی وطن واپسی کے اعلانات کرچکے تھے لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بظاہر اس کی وجہ ملک کی مختلف عدالتوں میں ان پر چلنے والے مقدمات ہیں۔
رواں ہفتے سندھ ہائی کورٹ نے تین مقدمات میں ان کی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ انھیں پاکستان میں سلامتی، سیاسی اور قانونی چیلنجز درپیش ہیں لیکن وہ سب کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ویسا نہیں ہے جیسا وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ ’’میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں عوام کی حالت دیکھتا ہوں۔‘‘ ان کے بقول وہ اپنی سیاسی جماعت کے ذریعے پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے۔
وہ اپریل 2009ء میں بیرون ملک منتقل ہو گئے تھے اور اس دوران ان کا زیادہ تر وقت دبئی اور برطانیہ میں گزرا۔
اتوار کو دبئی سے کراچی آمد پر استقبال کے لیے آنے والے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ وہ تمام خطرات اور دھمکیوں کے باوجود وطن واپس آئے ہیں اور اب یہیں رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج میں شمولیت کے وقت انھوں نے ملک کی حفاظت کی جو قسم کھائی تھی وہ اس پر کاربند رہے اور اب اسی قسم کے تحت وہ پاکستانی عوام کے لیے ملک واپس آئے ہیں۔
’’آج میں اس دھرتی کے حکم پر اس عوام کے حکم پر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر واپس آگیا ہوں۔ ان لوگوں کو سبق سیکھ لینا چاہیئے جو کہتے تھے کہ میں نہیں آؤں گا۔ میں آ گیا ہوں اور اب یہیں رہوں گا اگر آپ لوگوں کا جذبہ ایسا ہی رہا تو ہمیں کامیابی ملے گی۔‘‘
طالبان کی طرف سے ان پر قاتلانہ حملے کے لیے خودکش بمبار بھیجنے کی دھمکی کا ذکر کرتے ہوئے پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ وہ ایسی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ان کی پاکستان آمد کے موقع پر کراچی کے ہوائی اڈے اور اس کے گردونواح میں سکیورٹی کے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اضافی نفری بھی یہاں تعینات کی گئی تھی۔
سابق صدر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ مزار قائد پر ان کے جلسے کے اجازت نامے کو منسوخ کر کے ان کے لیے آغاز ہی سے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دی گئی ہیں لیکن ان کے بقول وہ پورے ملک میں جلسے کریں گے اور ان کی جماعت انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔
پرویز مشرف اس سے قبل بھی وطن واپسی کے اعلانات کرچکے تھے لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بظاہر اس کی وجہ ملک کی مختلف عدالتوں میں ان پر چلنے والے مقدمات ہیں۔
رواں ہفتے سندھ ہائی کورٹ نے تین مقدمات میں ان کی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ انھیں پاکستان میں سلامتی، سیاسی اور قانونی چیلنجز درپیش ہیں لیکن وہ سب کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ویسا نہیں ہے جیسا وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ ’’میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں عوام کی حالت دیکھتا ہوں۔‘‘ ان کے بقول وہ اپنی سیاسی جماعت کے ذریعے پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے۔