وکیل استغاثہ نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کو ضابطہ فوجداری کے تابع قرار دے چکی ہے اور قانون میں ملزم کی گرفتاری اور اسے عدالت میں پیش کرنے سے متعلق طریقہ کار موجود ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں ایک خصوصی عدالت نے کہا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں جہاں ضرورت ہو گی ضابطہ فوجداری کا اطلاق کیا جائے گا۔
غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی اس تین رکنی خصوصی عدالت نے بدھ کو اس مقدمے میں فوجداری کے قانون کے اطلاق سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا جو جمعہ کو سنایا گیا۔
پرویز مشرف کے وکلاء نے اس خصوصی عدالت کی تشکیل، اس کے دائرہ اختیار، اس کے ججوں کی تقرری اور استغاثہ کی تعیناتی کے خلاف درخواستیں جمع کروائی تھیں اور یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ یہ عدالت سابق فوجی صدر کے خلاف مقدمہ سننے اور ان کی گرفتای کے احکامات دینے کی مجاز نہیں۔
تاہم وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کے قانون میں کوئی سقم نہیں اور اگر کہیں کوئی کمی ہے تو وہاں عمومی یا ریاستی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کو ضابطہ فوجداری کے تابع قرار دے چکی ہے اور قانون میں ملزم کی گرفتاری اور اسے عدالت میں پیش کرنے سے متعلق طریقہ کار موجود ہے۔
سابق فوجی صدر اس مقدمے کی اب تک ہونے والی سماعتوں میں عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور سینے میں اچانک تکلیف کے باعث وہ دو جنوری کو عدالت جاتے ہوئے راستے ہی سے راولپنڈی میں فوج کے ایک اسپتال منتقل ہوگئے۔
تاہم عدالت میں پرویز مشرف کے طبی معائنے کی پیش کی گئی رپورٹس پر بحث و دلائل کے بعد عدالت نے سابق فوجی صدر کو 16 جنوری کو بینچ کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انھوں نے عدالت سے یہ درخواست کر رکھی ہے کہ جب تک خصوصی عدالت کی تشکیل اور دیگر اعتراضات پر فیصلہ نہیں ہو جاتا ان کے موکل کو عدالت میں طلب نہ کیا جائے۔
16 جنوری کو عدالت حکم پر پرویز مشرف کے پیش ہونے کے بارے میں احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ’’ یہ ڈاکٹرز کی رائے پر منحصر ہے، اگر ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ وہ (پرویز مشرف) عدالت میں پیش نہیں ہوسکیں گے تو ڈاکٹرز کی رائے حتمی رائے ہوتی ہے۔‘‘
وفاقی حکومت نے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین توڑنے کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی عدالت تشکیل دی تھی جس نے گزشتہ ماہ کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی اس تین رکنی خصوصی عدالت نے بدھ کو اس مقدمے میں فوجداری کے قانون کے اطلاق سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا جو جمعہ کو سنایا گیا۔
پرویز مشرف کے وکلاء نے اس خصوصی عدالت کی تشکیل، اس کے دائرہ اختیار، اس کے ججوں کی تقرری اور استغاثہ کی تعیناتی کے خلاف درخواستیں جمع کروائی تھیں اور یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ یہ عدالت سابق فوجی صدر کے خلاف مقدمہ سننے اور ان کی گرفتای کے احکامات دینے کی مجاز نہیں۔
تاہم وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کے قانون میں کوئی سقم نہیں اور اگر کہیں کوئی کمی ہے تو وہاں عمومی یا ریاستی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کو ضابطہ فوجداری کے تابع قرار دے چکی ہے اور قانون میں ملزم کی گرفتاری اور اسے عدالت میں پیش کرنے سے متعلق طریقہ کار موجود ہے۔
سابق فوجی صدر اس مقدمے کی اب تک ہونے والی سماعتوں میں عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور سینے میں اچانک تکلیف کے باعث وہ دو جنوری کو عدالت جاتے ہوئے راستے ہی سے راولپنڈی میں فوج کے ایک اسپتال منتقل ہوگئے۔
تاہم عدالت میں پرویز مشرف کے طبی معائنے کی پیش کی گئی رپورٹس پر بحث و دلائل کے بعد عدالت نے سابق فوجی صدر کو 16 جنوری کو بینچ کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انھوں نے عدالت سے یہ درخواست کر رکھی ہے کہ جب تک خصوصی عدالت کی تشکیل اور دیگر اعتراضات پر فیصلہ نہیں ہو جاتا ان کے موکل کو عدالت میں طلب نہ کیا جائے۔
16 جنوری کو عدالت حکم پر پرویز مشرف کے پیش ہونے کے بارے میں احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ’’ یہ ڈاکٹرز کی رائے پر منحصر ہے، اگر ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ وہ (پرویز مشرف) عدالت میں پیش نہیں ہوسکیں گے تو ڈاکٹرز کی رائے حتمی رائے ہوتی ہے۔‘‘
وفاقی حکومت نے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین توڑنے کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی عدالت تشکیل دی تھی جس نے گزشتہ ماہ کارروائی کا آغاز کیا تھا۔