اسلام آباد —
اسلام آباد میں جمعرات کو خصوصی عدالت کے سامنے استغاثہ اور وکلائے صفائی نے سابق فورجی صدر پرویز مشرف کی طبی معائنے کی رپورٹ پر دلائل دیے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اس پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور چند گھنٹوں کے بعد رجسٹرار عبد الغنی سومرو نے یہ فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ امراض قلب کے فوجی اسپتال کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ یہ ظاہر نہیں کرتی کہ پرویز مشرف کو دل کا عارضہ لاحق ہے۔
خصوصی عدالت کے حکم نامے میں کہا کہ اگر سابق صدر 16 جنوری کو پیش نا ہوئے تو عدالت اس بارے میں مناسب حکم جاری کرے گی۔
پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے 24 دسمبر سے غداری کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔
اس مقدمے کی پہلی سماعت کے موقع پر سابق صدر سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے اور دو جنوری کو ہونے والی پیشی کے لیے اپنی رہائش گاہ سے عدالت جاتے ہوئے بقول پرویز مشرف کے وکلا سینے میں اچانک تکلیف کے باعث انھیں راولپنڈی میں امراض قلب کے فوجی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے جمعرات کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بارے میں صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے طبی رپورٹ کے تمام مندرجات پر بحث کی اور اس موقف کو دہرایا کہ سابق صدر کو حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
’’انھیں (پرویز مشرف کو) ابھی ڈاکٹروں نے اسپتال سے فارغ نہیں کیا لہذا ہم نے عدالت سے کہا کہ جب تک ان کی حالت ایسی نہیں ہو جاتی کہ وہ خود عدالت میں پیش ہو سکیں انھیں استثنیٰ دیا جائے۔‘‘
تاہم وکیل استغاثہ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں کوئی ’’ایسی بات نہیں ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے تو ہم نے استدعا کی کہ انھیں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جائے۔‘‘
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے 2007ء میں ملک کا آئین معطل کرکے ایمرجنسی نافذ کی اور ان کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اس پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور چند گھنٹوں کے بعد رجسٹرار عبد الغنی سومرو نے یہ فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ امراض قلب کے فوجی اسپتال کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ یہ ظاہر نہیں کرتی کہ پرویز مشرف کو دل کا عارضہ لاحق ہے۔
خصوصی عدالت کے حکم نامے میں کہا کہ اگر سابق صدر 16 جنوری کو پیش نا ہوئے تو عدالت اس بارے میں مناسب حکم جاری کرے گی۔
پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے 24 دسمبر سے غداری کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔
اس مقدمے کی پہلی سماعت کے موقع پر سابق صدر سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے اور دو جنوری کو ہونے والی پیشی کے لیے اپنی رہائش گاہ سے عدالت جاتے ہوئے بقول پرویز مشرف کے وکلا سینے میں اچانک تکلیف کے باعث انھیں راولپنڈی میں امراض قلب کے فوجی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے جمعرات کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بارے میں صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے طبی رپورٹ کے تمام مندرجات پر بحث کی اور اس موقف کو دہرایا کہ سابق صدر کو حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
’’انھیں (پرویز مشرف کو) ابھی ڈاکٹروں نے اسپتال سے فارغ نہیں کیا لہذا ہم نے عدالت سے کہا کہ جب تک ان کی حالت ایسی نہیں ہو جاتی کہ وہ خود عدالت میں پیش ہو سکیں انھیں استثنیٰ دیا جائے۔‘‘
تاہم وکیل استغاثہ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں کوئی ’’ایسی بات نہیں ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے تو ہم نے استدعا کی کہ انھیں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جائے۔‘‘
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے 2007ء میں ملک کا آئین معطل کرکے ایمرجنسی نافذ کی اور ان کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے۔