سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے کہا کہ اُنھوں اپنے نو سالہ دور اقتدار میں جو کچھ بھی کیا وہ ملک اور عوام کے لیے کیا۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے طویل عرصے کے بعد ایک نجی ٹیلی ویژن چینل ’اے آر وائے‘ سے انٹرویو میں جذباتی انداز میں کہا کہ اگر بعض لوگوں لگتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے دور اقتدار میں غلطی کی ہے تو وہ اس کے لیے ’معافی چاہتے‘ ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں کیے گئے فیصلوں سے متعلق اس طرح کیا بیان دیا ہے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ اُنھوں اپنے نو سالہ دور اقتدار میں جو کچھ بھی کیا وہ ملک اور عوام کے لیے کیا۔ ’’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ غلط کیا تو وہ غلطی ہو سکتی ہے، دانستہ طور پر سوچے سمجھے بدنیتی پر کچھ نہیں کیا۔ اگر کوئی غلطی سمجھتا ہے تو میں اس کی معافی چاہتا ہوں۔‘‘
سابق صدر کا اصرار تھا کہ اُنھوں ہر فیصلہ ملک اور عوام کے مفاد میں کیا۔
پرویز مشرف کو متعدد مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے چار میں اُن کی ضمانت منظور ہو چکی ہے اور تقریباً چھ ماہ کی قید کے بعد گزشتہ مہینے ہی اُنھیں رہائی ملی۔
اُنھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کریں گے۔ ’’ایک کے بعد ایک مقدمے میں اُلجھایا جا رہا ہے۔ میں یہ مقدمات ختم کرنا چاہتا ہوں تاکہ ایک دفعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔‘‘
پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے شق چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کر رکھا ہے
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں وفاقی حکومت نے تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی ہے جو اس مقدمے کی سماعت کرے گی۔
حکومت کا موقف ہے کہ سابق فوجی صدر نے نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا تھا اور اُن کا یہ اقدام آئین کی شق چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
پرویز مشرف کی قانونی مشیر اس الزام کی مسلسل نفی کرتے آئے ہیں اور بعض قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر نے اُس وقت کے وزیراعظم اور اعلیٰ عسکری عہدیداروں کے علاوہ دیگر متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اس لیے صرف پرویز مشرف کے خلاف ہی کارروائی کرنا درست نہیں۔
سابق صدر لگ بھگ چار سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد رواں سال مارچ میں عام انتخابات میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کے لیے وطن واپس آئے تھے لیکن اُن کے خلاف قائم مختلف مقدمات کے باعث پرویز مشرف کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔
پرویز مشرف کا نام اب بھی 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں کیے گئے فیصلوں سے متعلق اس طرح کیا بیان دیا ہے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ اُنھوں اپنے نو سالہ دور اقتدار میں جو کچھ بھی کیا وہ ملک اور عوام کے لیے کیا۔ ’’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ غلط کیا تو وہ غلطی ہو سکتی ہے، دانستہ طور پر سوچے سمجھے بدنیتی پر کچھ نہیں کیا۔ اگر کوئی غلطی سمجھتا ہے تو میں اس کی معافی چاہتا ہوں۔‘‘
سابق صدر کا اصرار تھا کہ اُنھوں ہر فیصلہ ملک اور عوام کے مفاد میں کیا۔
پرویز مشرف کو متعدد مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے چار میں اُن کی ضمانت منظور ہو چکی ہے اور تقریباً چھ ماہ کی قید کے بعد گزشتہ مہینے ہی اُنھیں رہائی ملی۔
اُنھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کریں گے۔ ’’ایک کے بعد ایک مقدمے میں اُلجھایا جا رہا ہے۔ میں یہ مقدمات ختم کرنا چاہتا ہوں تاکہ ایک دفعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔‘‘
پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے شق چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کر رکھا ہے
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں وفاقی حکومت نے تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی ہے جو اس مقدمے کی سماعت کرے گی۔
حکومت کا موقف ہے کہ سابق فوجی صدر نے نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا تھا اور اُن کا یہ اقدام آئین کی شق چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
پرویز مشرف کی قانونی مشیر اس الزام کی مسلسل نفی کرتے آئے ہیں اور بعض قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر نے اُس وقت کے وزیراعظم اور اعلیٰ عسکری عہدیداروں کے علاوہ دیگر متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اس لیے صرف پرویز مشرف کے خلاف ہی کارروائی کرنا درست نہیں۔
سابق صدر لگ بھگ چار سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد رواں سال مارچ میں عام انتخابات میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کے لیے وطن واپس آئے تھے لیکن اُن کے خلاف قائم مختلف مقدمات کے باعث پرویز مشرف کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔
پرویز مشرف کا نام اب بھی 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔