ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو ایمرجنسی کی ایڈوائس نہیں دی تھی کیونکہ فوج کے سربراہ کو ایڈوائس نہیں دی جاسکتی۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف جہاں ایک طرف غداری کے مقدمے کی کارروائی خصوصی عدالت میں جاری ہے وہیں سابق صدر کے غاصب قرار دینے کے 31 جولائی 2009ء کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کر رہا ہے۔
بدھ کو عدالت عظمیٰ میں پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے دلائل دیتے ہوئے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ ان کے موکل نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو ایمرجنسی کی ایڈوائس نہیں دی تھی کیونکہ فوج کے سربراہ کو ایڈوائس نہیں دی جاسکتی۔
اس پر 14 رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان کی صاف گوئی قابل ستائش ہے اور انھوں نے عدالت کا مسئلہ حل کردیا کیونکہ غداری کا مقدمہ صرف پرویز مشرف کے خلاف ہے۔
تین نومبر کو ملک میں آئین معطل کرکے ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت میں کارروائی جاری ہے اور اس سے قبل سابق فوجی صدر اور ان کے وکلا کی طرف سے یہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ پرویز مشرف نے تمام متعلقہ حکومتی عہدیداروں کی مشاورت سے کیا تھا اس لیے صرف ان ہی پر غداری کا مقدمہ چلانا درست اقدام نہیں۔
بدھ کو لارجر بینچ کے سامنے پرویز مشرف کے ایک وکیل شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ مارچ 2007ء میں پرویز مشرف اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور 31 جولائی 2009ء کا فیصلہ اسی تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔
جس پر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ افتخار چودھری کے سامنے اٹھایا گیا۔ پیرزادہ نے اس پر مثبت جواب دیا جس کی لارجر بینچ نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات ریکارڈ پر نہیں ہے۔
پیرزادہ نے کہا پرویز مشرف اور افتخار چودھری کے درمیان اختلافات کسی سے ڈھکے چپھے نہیں ہیں۔ اس پر جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ محض ہوائی باتیں ہیں جن کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 31 جولائی کے فیصلے میں افتخار محمد چودھری کس طرح دیگر 13 ججز پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور اگر پیرزادہ کی دلیل مان بھی لی جائے تو بھی اکثریت کا فیصلہ ہی موثر ہوتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے پرویز مشرف کے وکلا کو جمعرات تک اپنے دلائل مکمل کرنے کا کہتے ہوئے سماعت تیس جنوری تک ملتوی کردی۔
ادھر خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے تین رکنی بینچ سے استدعا کی کہ سابق صدر کے وکلا کی ٹیم چونکہ عدالت عظمیٰ میں مصروف ہے لہذا اس کا فیصلہ آنے تک غداری کے مقدمے کی سماعت کو ملتوی کردیا جائے۔
اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جب تک عدالت عظمیٰ حکم امتناعی جاری نہیں کرتی اس وقت تک خصوصی عدالت کی کارروائی کیسے روکی جاسکتی ہے۔
استغاثہ کی طرف سے پرویز مشرف کی صحت سے متعلق رپورٹ پیش کرنے والے خصوصی میڈیکل بورڈ کے سربراہ کو جرح کے لیے عدالت میں پیش کرنے کی درخواست پر خصوصی عدالت نے وکلائے صفائی کو بھی نوٹس جاری کیا اور سماعت 30 جنوری تک ملتوی کردی۔
سابق فوجی صدر کے خلاف وفاق کی درخواست پر خصوصی عدالت میں غداری کے مقدمے کی کارروائی 24 دسمبر کو شروع ہوئی تھی جب کہ دو جنوری کو پرویز مشرف عدالت جاتے ہوئے اچانک سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال منتقل ہوگئے جہاں وہ اب تک داخل ہیں۔
بدھ کو عدالت عظمیٰ میں پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے دلائل دیتے ہوئے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ ان کے موکل نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو ایمرجنسی کی ایڈوائس نہیں دی تھی کیونکہ فوج کے سربراہ کو ایڈوائس نہیں دی جاسکتی۔
اس پر 14 رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان کی صاف گوئی قابل ستائش ہے اور انھوں نے عدالت کا مسئلہ حل کردیا کیونکہ غداری کا مقدمہ صرف پرویز مشرف کے خلاف ہے۔
تین نومبر کو ملک میں آئین معطل کرکے ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت میں کارروائی جاری ہے اور اس سے قبل سابق فوجی صدر اور ان کے وکلا کی طرف سے یہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ پرویز مشرف نے تمام متعلقہ حکومتی عہدیداروں کی مشاورت سے کیا تھا اس لیے صرف ان ہی پر غداری کا مقدمہ چلانا درست اقدام نہیں۔
بدھ کو لارجر بینچ کے سامنے پرویز مشرف کے ایک وکیل شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ مارچ 2007ء میں پرویز مشرف اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور 31 جولائی 2009ء کا فیصلہ اسی تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔
جس پر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ افتخار چودھری کے سامنے اٹھایا گیا۔ پیرزادہ نے اس پر مثبت جواب دیا جس کی لارجر بینچ نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات ریکارڈ پر نہیں ہے۔
پیرزادہ نے کہا پرویز مشرف اور افتخار چودھری کے درمیان اختلافات کسی سے ڈھکے چپھے نہیں ہیں۔ اس پر جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ محض ہوائی باتیں ہیں جن کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 31 جولائی کے فیصلے میں افتخار محمد چودھری کس طرح دیگر 13 ججز پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور اگر پیرزادہ کی دلیل مان بھی لی جائے تو بھی اکثریت کا فیصلہ ہی موثر ہوتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے پرویز مشرف کے وکلا کو جمعرات تک اپنے دلائل مکمل کرنے کا کہتے ہوئے سماعت تیس جنوری تک ملتوی کردی۔
ادھر خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے تین رکنی بینچ سے استدعا کی کہ سابق صدر کے وکلا کی ٹیم چونکہ عدالت عظمیٰ میں مصروف ہے لہذا اس کا فیصلہ آنے تک غداری کے مقدمے کی سماعت کو ملتوی کردیا جائے۔
اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جب تک عدالت عظمیٰ حکم امتناعی جاری نہیں کرتی اس وقت تک خصوصی عدالت کی کارروائی کیسے روکی جاسکتی ہے۔
استغاثہ کی طرف سے پرویز مشرف کی صحت سے متعلق رپورٹ پیش کرنے والے خصوصی میڈیکل بورڈ کے سربراہ کو جرح کے لیے عدالت میں پیش کرنے کی درخواست پر خصوصی عدالت نے وکلائے صفائی کو بھی نوٹس جاری کیا اور سماعت 30 جنوری تک ملتوی کردی۔
سابق فوجی صدر کے خلاف وفاق کی درخواست پر خصوصی عدالت میں غداری کے مقدمے کی کارروائی 24 دسمبر کو شروع ہوئی تھی جب کہ دو جنوری کو پرویز مشرف عدالت جاتے ہوئے اچانک سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال منتقل ہوگئے جہاں وہ اب تک داخل ہیں۔