اسلام آباد —
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف 2009ء کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی سماعت منگل کو شروع کی جو وکیل صفائی کے مطابق سابق صدر فوجی صدر کے خلاف جاری غداری کی کارروائی کی بنیاد ہے۔
عدالت عظمیٰ کے 14 رکنی بینچ سے وکیل صفائی ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی کارروائی ان کے موکل کی غیر موجودگی میں کی گئی اور ان کے نقطہ نظر کو نہیں سنا گیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی کارروائی کی بنیاد ’’تعصب اور ذاتی وجوہات‘‘ پر تھی۔
اپنے دلائل میں ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں آئینی ترمیم کے تحت شروع کیا گیا جبکہ غداری کی کارروائی فوجداری قانون کے تحت آتی ہے اور اس کا اطلاق ان جرائم پر ہوتا ہے جو کہ اس کے نفاذ کے بعد سرزد ہوں۔
سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے متعدد بار تجویز بھی پیش کہ یہ عدالت خصوصی ٹربیونل کو حکم جاری کر سکتی ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فوج کے سابق سربراہ کے خلاف غداری کی کارروائی کرے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پرویز مشرف کے ایک وکیل اور سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ یہ سود مند نا ہوگا۔
’’وہ ایک عدالتی راستہ ہے۔ لیکن اگر یہ لکھ بھی دیا جائے تو ماتحت عدالتیں اس سے متاثر نہیں ہوتیں۔ جیسے روزانہ ضمانت کی درخواستوں میں ہوتا اور جو فیصلہ ہائی کورٹ کرتی ہے ماتحت عدالتیں اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ کمپلینٹ میں ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ لکھا ہے لہذا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ رہے تو کس جج کی ہمت ہے کہ اس کے خلاف فیصلہ دے۔‘‘
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ عدالت کھلے ذہن کے ساتھ اس اپیل کو سن رہی ہے اور دفاع کو مکمل موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
2009ء میں اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین معطل کرکے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر غاصب قرار دیا تھا۔
تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق چند درخواستوں کی سماعت کے دوران گزشتہ سال کے اواخر میں نواز شریف حکومت نے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ وہ سابق صدر کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی ذاتی یا سیاسی عناد نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے نظرثانی کی اپیل کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔
ادھراستغاثہ کے وکلاء نے پرویز مشرف کا میڈیکل جائزہ لینے والی ڈاکٹروں کی ٹیم کے سربراہ سے جرح کرنے کے لیے خصوصی عدالت سے مشروط درخواست کی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ افواج پاکستان کے ادارہ برائے امراض قلب کی پرویز مشرف کی صحت سے متعلق رپورٹ ’’گول مول اور امراض قلب کے مروجہ طریقہ کار کے خلاف ‘‘ ہے اور اس پر اعتراضات پہلے ہی عدالت میں جمع کروا دیے گئے ہیں۔
لیکن اگر اس رپورٹ کو عدالت کسی قسم کی اہمیت دینے کی خواہش رکھتی ہے تو استغاثہ کا کہنا تھا کہ وہ کم از کم اس میڈیکل ٹیم کے صدر سید محمد عمران مجید سے جرح کرنا چاہیں گے تاکہ ’’ان کے محدود نتائج، مشورے اور نسخے کے وجوہات‘‘ جانی جا سکے۔
گزشتہ ہفتے خصوصی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں سابق صدر کی بیماری پیچیدہ اور غیر متوقع قرار دیتے ہوئے ان کی فوراً اینجیوگرافی تجویز کی گئی تھی۔
پرویز مشرف کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کے موکل اینجیو گرافی اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی اسپتال سے کروانے کا حق رکھتے ہیں تاہم رپورٹ میں یہ سفارش نہیں کی گئی کہ سابق صدر کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھجوایا جائے۔
استغاثہ کے وکلاء عدالت میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر فوج کے سابق سربراہ کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو ایسی صورت میں دیگر ملزم یا مجرم بھی عدالتوں سے ایسا ہی تقاضا کریں گے۔
خصوصی عدالت کی سماعت بدھ کو ہوگی جس میں ان تمام امور پر بحث متوقع ہے۔
عدالت عظمیٰ کے 14 رکنی بینچ سے وکیل صفائی ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی کارروائی ان کے موکل کی غیر موجودگی میں کی گئی اور ان کے نقطہ نظر کو نہیں سنا گیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی کارروائی کی بنیاد ’’تعصب اور ذاتی وجوہات‘‘ پر تھی۔
اپنے دلائل میں ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں آئینی ترمیم کے تحت شروع کیا گیا جبکہ غداری کی کارروائی فوجداری قانون کے تحت آتی ہے اور اس کا اطلاق ان جرائم پر ہوتا ہے جو کہ اس کے نفاذ کے بعد سرزد ہوں۔
سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے متعدد بار تجویز بھی پیش کہ یہ عدالت خصوصی ٹربیونل کو حکم جاری کر سکتی ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فوج کے سابق سربراہ کے خلاف غداری کی کارروائی کرے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پرویز مشرف کے ایک وکیل اور سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ یہ سود مند نا ہوگا۔
’’وہ ایک عدالتی راستہ ہے۔ لیکن اگر یہ لکھ بھی دیا جائے تو ماتحت عدالتیں اس سے متاثر نہیں ہوتیں۔ جیسے روزانہ ضمانت کی درخواستوں میں ہوتا اور جو فیصلہ ہائی کورٹ کرتی ہے ماتحت عدالتیں اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ کمپلینٹ میں ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ لکھا ہے لہذا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ رہے تو کس جج کی ہمت ہے کہ اس کے خلاف فیصلہ دے۔‘‘
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ عدالت کھلے ذہن کے ساتھ اس اپیل کو سن رہی ہے اور دفاع کو مکمل موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
2009ء میں اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین معطل کرکے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر غاصب قرار دیا تھا۔
تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق چند درخواستوں کی سماعت کے دوران گزشتہ سال کے اواخر میں نواز شریف حکومت نے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ وہ سابق صدر کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی ذاتی یا سیاسی عناد نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے نظرثانی کی اپیل کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔
ادھراستغاثہ کے وکلاء نے پرویز مشرف کا میڈیکل جائزہ لینے والی ڈاکٹروں کی ٹیم کے سربراہ سے جرح کرنے کے لیے خصوصی عدالت سے مشروط درخواست کی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ افواج پاکستان کے ادارہ برائے امراض قلب کی پرویز مشرف کی صحت سے متعلق رپورٹ ’’گول مول اور امراض قلب کے مروجہ طریقہ کار کے خلاف ‘‘ ہے اور اس پر اعتراضات پہلے ہی عدالت میں جمع کروا دیے گئے ہیں۔
لیکن اگر اس رپورٹ کو عدالت کسی قسم کی اہمیت دینے کی خواہش رکھتی ہے تو استغاثہ کا کہنا تھا کہ وہ کم از کم اس میڈیکل ٹیم کے صدر سید محمد عمران مجید سے جرح کرنا چاہیں گے تاکہ ’’ان کے محدود نتائج، مشورے اور نسخے کے وجوہات‘‘ جانی جا سکے۔
گزشتہ ہفتے خصوصی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں سابق صدر کی بیماری پیچیدہ اور غیر متوقع قرار دیتے ہوئے ان کی فوراً اینجیوگرافی تجویز کی گئی تھی۔
پرویز مشرف کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کے موکل اینجیو گرافی اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی اسپتال سے کروانے کا حق رکھتے ہیں تاہم رپورٹ میں یہ سفارش نہیں کی گئی کہ سابق صدر کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھجوایا جائے۔
استغاثہ کے وکلاء عدالت میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر فوج کے سابق سربراہ کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو ایسی صورت میں دیگر ملزم یا مجرم بھی عدالتوں سے ایسا ہی تقاضا کریں گے۔
خصوصی عدالت کی سماعت بدھ کو ہوگی جس میں ان تمام امور پر بحث متوقع ہے۔