کراچی کے آرٹس کونسل میں رواں ہفتے آل پاکستان میوزک کانفرنس کے زیر انتظام ایک دو روزہ سالانہ میلہ منعقد کیا گیا جس میں ملک بھر سے آئے کلاسیکی موسیقی اور رقص کے نامور فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
میوزک فیسٹول کے منتظمین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کو فروغ دینے کے لیے ان کا ادارہ ہر سال اس میلے کا انعقاد کرتا ہے اور ہر طبقے کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اس میں داخلہ مفت رکھا جاتا ہے۔
آل پاکستان میوزک کانفرنس کی سیکرٹری عائلہ رضا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے کی یہ نویں سالانہ کانفرنس تھی جس کا مقصد نئے لوگوں کو کلاسیکی موسیقی سے متعارف کرانا ہے۔ ”نئے لوگ آئیں گے، بچوں کے کان موسیقی کی اس طرز سے مانوس ہوں گے تو آگے جا کر ان کا ذوق بھی بنے گا۔“
میلہ موسیقی میں کلاسیکی موسیقی اور رقص سیکھنے والے نئے طلباء کے لیے بھی باقاعدہ ایک علیحدہ سیشن رکھا گیا تھا جس میں روزانہ دس کے قریب نئے اور کم عمر فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
ان میں13 سالہ احسن علی بھی تھے جو پڑوسی ملک ہندوستان میں موسیقی کے ایک پروگرام ’چھوٹے استاد‘ میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اُن کی عمر کے بچوں کا پاپ موسیقی کی طرف رجحان زیادہ ہے۔”میں بھی ہر طرح کی موسیقی گا لیتا ہوں لیکن میری دلچسپی کلاسیکی موسیقی میں زیادہ ہے اور میں اس شوق کو جاری رکھنا چاہتا ہوں۔“
عائلہ رضا کا کہنا تھا کسی زمانے میں کلاسکی موسیقی افراد کی تربیت کا حصہ سمجھی جاتی تھی تاکہ لوگ شاعری اور اچھی موسیقی کوسمجھیں ۔”اور اب معاشرے کے لحاظ سے جو ہم سب کا زوال ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم میں ان سب چیزوں کی وقعت ختم ہوتی جا رہی ہے۔“
عائلہ کہتی ہیں کہ فیض احمد فیض، حبیب جالب، مہدی حسن، نور جہاں، بڑے غلام، روشن آراء بیگم اور ان جیسے دیگر ناموں سے ہمارے بچوں کو صرف زبانی طور پر واقف نہیں ہونا چاہئے۔
”اگر پاکستان میں اس طرح کی محفلوں کو فروغ نہ ملا تو معلوم نہیں ہم یہ نام اپنے بچوں کو منتقل کر سکیں گے یا نہیں۔“