پاکستان کی وفاقی کابینہ نے حال ہی میں نیشنل سکیورٹی پالیسی یعنی ’پالیسی برائے قومی سلامتی‘ کی منظوری دی۔ حکومتی عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ ملک کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل معاملے کو پہلی بار ایک منظم پالیسی کی شکل دی گئی ہے۔
مگرحزب اختلاف اس پالیسی پر یہ کہتے ہوئے تنقید کر رہی ہے کہ ملکی سلامتی کے معاملے میں پارلیمنٹ جیسے انتہائی معتبر ادارے سے مشورہ نہیں کیا گیا اور صرف فوج سے مشورے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔
حکومت کے عہدیداروں کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر موجود سکیورٹی سے متعلق کمیٹی سے اس بارے میں مشاورت کی گئی۔ تاہم، جن راہنماوں کو اعتراضات ہیں وہ اب بھی اپنا نقطہ نظر بتا سکتے ہیں، اور ضروری ہوا تو اس کو دستاویز کا حصہ بنایا جائے گا۔
قومی سلامتی پالیسی ہوتی کیا ہے؟
پاکستانی کی 'پہلی قومی سلامتی پالیسی' کے خد و خال کیا ہیں؟ کون کون سے شعبوں اور معاملات کو اس میں اہم خیال کیا گیا ہے؟ ریاست اور عوام کے کن مفادات کو کس طرح کے خطرات لاحق ہیں، کہاں کہاں سے چیلنجز کا سامنا ہے اور ہو سکتا ہے، آگے بڑھنے کے لیے کن راستوں کا تعین کیا گیا ہے۔ ایسے بہت سے سوالوں کے جواب اب تک واضح نہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ اس پالیسی میں شامل کون کون سے پہلو قومی راز کے طور پر ’کلاسیفائیڈ‘ رہیں گے اور کیا کچھ عوام کے سامنے لایا جائے گا۔ تو آئیے پہلے جانتے ہیں کہ علمی اعتبار سے قومی سلامتی پالیسی عموماً کن اکائیوں کا احاطہ کرتی ہے۔
قومی سلامتی کی تعریف
مختلف کتابوں اور تھنک ٹینکس نے مختلف سیاسی مفکرین کے حوالوں سے قومی سلامتی کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ زیادہ تر ماہرین جس تعریف پر اتفاق کرتے ہیں اس کے مطابق قومی سلامتی کا مطلب ہے شہریوں اور ریاست کے مفادات کے تحفظ کی اہلیت کا حامل ہونا۔ ملک کی سلامتی و بقا اور علاقائی خود مختاری اور ریاست کے سیاسی، معاشی اور دیگر مفادات اور اس کی اقدار کا تحفظ۔۔
ڈاکٹر عادل نجم بوسٹن یونیورسٹی میں پارڈی اسکول آف گلوبل اسٹڈیز کے ڈین ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی بہت سے ممالک میں کوئی باضابطہ دستاویز نہیں ہوتی۔ بقول ان کے، "کچھ نظریات اور کچھ پریکٹسز کا سیٹ ہوتی ہے جو کسی ملک کی سکیورٹی کی سمت کا تعین کرتی ہے‘‘۔
ان کے مطابق ماضی میں بادشاہ، صدور اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے عمل سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کی پالیسی کیا ہے جبکہ جدید جمہوری دور میں کچھ دہائیوں سے اس کو ایک پالیسی دستاویز کے طور پر رقم کیا جاتا ہے اور مختلف ملکوں میں اس کی ہیئت مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض جگہوں پر یہ پالیسی صرف سکیورٹی معاملات کا تعین کرتی ہے، جبکہ بعض ملکوں میں اس کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ مگر عالمی سطح پر نیشنل سکیورٹی پالیسی باقاعدہ ایک شکل نہیں رکھتی ہے۔
تاہم پروفیسر عادل نجم سمجھتے ہیں کہ سکیورٹی پالیسی میں ایک بات ہر جگہ مشترک ہوگی اور وہ یہ کہ اس میں چیزوں کو عمومی انداز میں بیان کیا جائے گا، جیسے آئین میں وسیع تر معنوں میں چیزوں کو قلم بند کیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ اور عدالتیں اس آئین کے تابع مفصل قوانین بناتی ہیں مگر قومی سلامتی پالیسی کی وضاحت اس طرح نہیں ہوگی۔
کیا امریکہ بھی نیشنل سکیورٹی پالیسی بناتا ہے؟
ڈاکٹر عادل نجم کہتے کہ امریکہ، کنییڈا سمیت تقریباً تمام بڑے ملک نیشنل سکیورٹی پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ ملک کے مفادات اور ان کے حصول کے لیے سمت کا تعین کیا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری لائی جاتی ہے۔
امریکہ میں اس کو این ایس ایس (نیشنل سکیورٹی سٹریٹجی) کہتے ہیں۔ آئینی تقاضا ہے کہ ہر سال یہ دستاویز آئے لیکن کبھی کبھی یہ ڈاکومنٹ سالانہ نہیں بھی آتا ہے۔ ڈاکٹر عادل نجم کے بقول جب وہ ڈاکومنٹ آتا ہے تو اس پر کافی بحث ہوتی ہے۔ باقی دنیا بھی اس کو دیکھتی ہے۔ امریکہ میں نیشنل سیکوریٹی بھی قدرے نئی چیز ہے۔ 1986 میں امریکہ میں 'گولڈ واٹر انکولس' ایکٹ منظور ہوا جس میں کانگریس کا کہنا تھا کہ ہر سال صدر کانگریس کو ایک دستاویز میں بتائیں کہ ان کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کیا ہے۔
ڈاکٹر عادل نجم کی نظر میں پاکستان بھی امریکی طریقہ کار کی تقلید کر رہا ہے۔ امریکہ نے بھی یہ دستاویز بنانے کی ذمہ داری نیشنل سکیورٹی کونسل کو دے رکھی ہے۔ پاکستان نے بھی نیشنل سکیورٹی کونسل کو ہی یہ کام تفویض کیا ہے۔ لیکن چونکہ امریکہ میں یہ کام برسوں سے ہو رہا ہے، اس لیے خبر نہیں بنتا اور پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے تو بڑی خبر بن گیا ہے۔
کیا پاکستان میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی بنائی گئی ہے؟
ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی پر سات سال سے کام ہو رہا تھا، ہم نے قومی سلامتی پالیسی پر از سر نو کام کر کے اسے مرتب کیا ہے۔ ان کے بقول، ''یہ تاریخی کامیابی ہے''۔
تحریک انصاف کے راہنما اور قومی اسمبلی میں دفاع کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ امجد علی خان بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو کہتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی کو بطور ایک پالیسی سامنے لانے کا کام ان کی حکومت نے انجام دیا ہے۔
سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ ملک میں پہلی بار نیشنل سکیورٹی پالیسی بنائی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نیشنل سیکورٹی پالیسی پہلے بھی ہوتی تھی۔ اب نام تبدیل ہوا ہے۔ پہلے ڈیفینس کمیٹی آف کیبنٹ (ڈی سی سی) تھی۔ پارلیمنٹ میں معاملات پر بحث ہوتی تھی اور وہاں سے جو تاثر بنتا تھا اس پر خارجہ اور دفاع سے متعلق پالیسی بنتی تھی۔
انہوں نے واضح کیا کہ مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں توانائی کے بحران، معیشت کے مسائل اور دہشتگردی کے خطرات دیکھتے ہوئے باقاعدہ مفصل بحث ہوئی اور اقدامات کیے گئے۔ نیکٹا جیسا ادارہ بنا، دہشتگردی کے خلاف آپریشن ہوا، خصوصی عدالتیں بنائی گئیں۔ کئی دہشتگردوں کو سزائیں دی گئیں۔ ان کے بقول یہ سب کچھ قومی سلامتی پالیسی کے ہی تابع تھا۔
SEE ALSO: انخلا کے بعد افغانستان میں فضائی حملوں میں مدد نہیں کریں گے، سینٹکام کمانڈر
تجزیہ کار اور کالم نگار مشتاق راجپر بھی کہتے ہیں کہ، ’’یہ بات تو مضحکہ خیز ہے کہ ملک میں پہلی بار نیشنل سکیورٹی پالیسی بنائی گئی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک اپنے قیام کے بعد سے اب تک بغیر کسی سکیورٹی پالیسی کے چل رہا تھا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ قوموں کے سیاسی و جغرافیائی مفادات کا تعین ایسی پالیسیوں میں ہی کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عادل نجم کہتے ہیں کہ اس بات کا کریڈٹ بہرحال پاکستان کی موجودہ حکومت کو دینا ہو گا کہ اس نے پہلی مرتبہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کو ایک پالیسی دستاویز کی شکل دی ہے۔ جس کے بعد ملک کے کئی ادارے ایک واضح حکمت عملی کے تحت مربوط انداز میں اہداف کے حصول کے لیے کام کریں گے۔
پاکستان کی نیشنل سکیورٹی پالیسی میں کیا ہے؟
اپنے ٹویٹس میں پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے اب تک جو بتایا ہے اس کے مطابق ملک کی پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی شہریوں کے مفادات کو اپنا محور بنائے ہوئے ہے۔ ان کے بقول، اس پالیسی کے تحت، شہریوں کی معاشی سلامتی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اس پالیسی کے تحت شہریوں اور ریاست کے معاشی مفاد کے حصول کی کوشش جائے گی۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چئرمین امجد علی خان وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی نیشنل سکیورٹی پالیسی میں ملک کے تمام اہم اندرونی اور بیرونی معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق، اس میں خارجہ پالیسی ہے، فوڈ سکیورٹی، جیو اکنامکس، ہیلتھ سکیورٹی شامل ہیں اور پھر ’نان کائنیٹک‘ ( غیر ظاہری وجود رکھنے والے عوامل) کے خلاف ایک طریقہ کار، ایک سوچ کے تحت کام کرنا بھی اس دستاویز کا حصہ ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا ہے کہ پالیسی کا مقصد عام شہری کا جانی و معاشی تحفظ ہے۔ ان کے بقول دستاویز میں شامل زیادہ تر چیزیں عوام کے سامنے ہوں گی۔
کیا قومی سلامتی پالیسی پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے؟
لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے چالیس سال پاکستان کی فوج میں خدمات انجام دی ہیں اور اب ملکی سینیٹ میں مسلم لیگ نواز کے رکن ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جنرل عبدالقیوم نے کہا کہ ملکی معیشت ہو یا دفاع، سائبر سکیورٹی کے معاملات ہوں یا فوڈ سکیورٹی کے، ملک کی اندرونی سلامتی کا مسئلہ ہو یا خارجہ پالیسی اور دفاع کا، ان تمام معاملات پر سب سے پہلے پارلیمنٹ کے اندر مفصل گفتگو ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس گفتگو میں جو ماحول بنتا ہے، اس کو اگر قومی سلامتی کی دستاویز کا حصہ بنایا جائے تب ہی وہ ایک اجتماعی شعور اور پوری قوم کی امنگوں کی نمائندہ دستاویز ہوتی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک کابینہ بیٹھے اور اتنے اہم ڈاکومنٹ کو منظور کر کے اعلان کر دے کہ ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی بن گئی ہے۔
تحریک انصاف کے راہنما امجد علی خان اپوزیشن کی تنقید کو بے جا قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول ’’ یہ کہنا کہ پارلیمنٹ سے مشاورت نہیں کی گئی، یہ سیاسی بیان بازی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس بلایا تھا اور اس کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا۔‘‘
SEE ALSO: پاکستان میں پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوریوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کابینہ بھی پارلیمنٹ ہی کی نمائندہ ہے۔ ’’کیا ہماری کابینہ اور وزیراعظم کیا پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیں؟‘‘
شیری رحمٰن پاکستان پیپلز پارٹی کی راہنما ہیں۔ انہوں نے بھی سینیٹ کے فلور پر قومی سلامتی پالیسی کی کابینہ سے منظوری پر سخت تنقید کی اور کہا کہ ملک کے سب سے سپریم ادارے (پارلیمنٹ) سے اس بارے میں مشورہ نہیں کیا گیا اور صرف فوج سے مشورے کو ہی کافی سمجھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ہمیں تو ٹیلی ویژن دیکھ کر پتہ چل رہا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی بن چکی ہے اور اس کا محور معیشت ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اپنی ٹویٹس اور میڈیا چینلز سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ قومی سلامتی پالیسی کے لیے جو پروٹوکول موجود ہے، انہوں نے اس کے مطابق کام کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر یہ معاملہ لے کر جانا ان کے میینڈیٹ کا حصہ نہیں ہے۔ ان کے بقول، جو بھی کوئی ان پٹ دینا چاہتا ہے، ضرور دے۔ انہوں نے جیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کی کمیٹی کو اس پالیسی کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کی تشکیل آئین سازی نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی اقدام ہے۔ ایگزیکٹو (انتظامیہ) کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی حکومت کی ترجیحات کے مطابق پالیسی بنائے اور اس کام کے لیے اسے پارلیمنٹ سے کسی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ پالیسی ڈاکومنٹس میں کم از کم پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں سے رائے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
’ادارہ جاتی ہائرارکی‘ (Institutional Hierarchy) میں پی ایچ ڈی رکھنے والی تجزیہ کار شمع جونیجو کہتی ہیں کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل اسی بات کی متقاضی ہے کہ اس کے اجلاس کی سربراہی وزیر اعظم کریں اور کابینہ، جوائنٹ چیف آف سٹاف اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان اس میں شریک ہوں۔ شمع جونیجو کی نظر میں اگرچہ حزب اختلاف کو قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل سے پہلے اعتماد میں لینا ایک اچھا عمل ہوتا لیکن اب آگے دیکھے کی ضرورت ہے۔
"یہ وقت سیاست سے آگے نکل کر یہ دیکھنے کا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی میں سب سے بڑا ایجنڈا معاشی طور پر مستحکم پاکستان ہے، اس کی حمایت کرنی چاہیے۔‘‘
واشنگٹن میں تجزیہ کار اور کالم نگار مشتاق راجپر کہتے ہیں کہ ملک کی چاروں اکائیوں کو سنے بغیر پالیسی تشکیل دینا مناسب نہیں ہے، ان کے خیال میں چاروں صوبوں کی آواز پالیسی میں شامل ہونی چاہیے اس سے ملک کمزور نہیں ہوتا۔ ’’ جب تک پاکستان کے نیشنل سکیورٹی کے مفادات پر پاکستان کے سپریم ادارے پارلیمنٹ کے اندر بحث نہیں ہو گی تو کسی بھی ایسی پالیسی کو کیسے جائز مقام حاصل ہو گا جو ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی بنائے گی۔ کیونکہ پاکستان ایک فیڈرل سٹیٹ ہے جس میں چار بڑی اکائیاں ہیں، جس میں سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا کے لوگ ہیں۔ ان کو بھی نیشنل سکیورٹی پالیسی کی تشکیل کے عمل میں شامل کرنا چاہیے۔‘‘
قومی سلامتی پالیسی میں کیا کلاسیفائیڈ ہے، کیا ان کلاسیفائیڈ؟
جنرل عبدالقیوم کہتے ہیں کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی میں یقنیی طور پر صرف فوجی یا دفاعی معاملات نہیں ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ اس میں ملکی معیشت، موجودہ یا مستقبل کے خطرات اور خدشات کا احاطہ ہوگا، سائبر خطرات پر بات ہوئی ہوگی، فوڈ سکیورٹی، ماحولیات، جیسے تمام معاملات پر پالیسی لائنز ہوں گی۔ ان کے مطابق سب چیزیں تو کلاسیفائیڈ نہیں ہو سکتیں، "فوجی اور سکیورٹی معاملات میں ’ تھریٹ پرسیپشنز‘ (خطرات کی نوعیت) کو آپ کلاسیفائیڈ رکھیں، ملک کے عوام اور عوام کے نمائندہ فورمز کو یہ تو بتائیں کہ ملکی معیشت اور عوام کی بہتری کے لیے کیا منصوبہ بندی ہے۔"
قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اپنی ٹویٹس میں اس ضمن میں بتایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کسی وقت قومی سلامتی پالیسی کا ’پبلک ورژن‘ قوم کے سامنے رکھیں گے۔
ڈاکٹر عادل نجم کا کہنا ہے کہ امریکہ سمیت کئی ممالک میں نیشنل سکیورٹی پالیسی کلاسیفائیڈ ہی ہوتی ہے لیکن یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں کہ اس کا اعادہ کبھی نہ ہو۔ امریکہ میں بھی گاہے گاہے خارجہ اور دفاع کے معاملات پر صدر کے بیانات اسی پالیسی کو ہی ظاہر کر رہے ہوتے ہیں ۔ اگر ایسی کوئی دستاویز سامنے آ بھی جائے تو اس میں یہ کہیں نہیں لکھا ہو گا کہ امریکہ کس ملک کے ساتھ کس طرح چلنا چاہتا ہے۔ اس میں موٹی موٹی گائیڈ لائنز ہوتی ہیں، ملک کے مفادات اور ممکنہ مسائل کا احاطہ ہوتا ہے۔
نیشنل سکیوٹی پالیسی پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟
ڈاکٹر معید یوسف نے اپنی ٹویٹس میں بتایا ہے کہ صرف یہ نہیں کہ قومی اہمیت کے حامل معاملات کو دستاویزی شکل دی گئی ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے بھی ایک لائحہ عمل تشکیل دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق ایک باڈی تشکیل دے دی گئی ہے جسے نیشنل سکیورٹی ڈویژن کا نام دیا گیا ہے۔ اس باڈی کے ذریعے اس پالیسی پر عمل درآمد کے کام کا جائزہ لیا جائے گا اور ہر ماہ اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں پیش کی جائے گی جس کی صدارت وزیراعظم کیا کریں گے۔