خیبر ایجنسی میں تعینات حکام کے مطابق مجموعی طور پر 12 ٹرک طورخم بارڈر کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد کی ترسیل دو ہفتوں تک بند رہنے بعد دوبارہ بحال ہو گئی ہے۔
نیٹو افواج کے لیے رسد لے جانے والے ایک قافلے پر 24 جولائی کو خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں دن دھاڑے شدت پسندوں نے حملہ کرکے ایک ڈرائیور کو ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد سلامتی کے خدشات کے باعث آمد و رفت کا یہ سلسلہ رک گیا تھا۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ہفتہ کو سامان سے لدے ٹرکوں کی روانگی کے موقع پر اضافی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ خیبر ایجنسی میں تعینات حکام کے مطابق مجموعی طور پر 12 ٹرک طورخم بارڈر کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے۔
سات ماہ سے زائد عرصے تک کی بندش کے بعد حکومتِ پاکستان نے جولائی کے پہلے ہفتے میں نیٹو کے ٹرکوں کے لیے چمن اور طورخم کی سرحد دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
رسد لے جانے والے ٹرکوں کی مالکان کی ایک نمائندہ تنظیم کے عہدیدارحکومت سے قافلے میں شامل ٹرکوں کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ نے گزشتہ ہفتے نیٹو سپلائی لائنز سے متعلق مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے تحت پاکستان اپنی سر زمین کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد کی ترسیل پر راہداری ٹیکس وصول نہیں کرے گا اور افغانستان سے 2014ء کے اختتام پر غیر ملکی افواج کے انخلا کے ایک سال بعد تک یہ معاہدہ قابل عمل ہو گا۔
معاہدے کے تحت اختلافی امور کو طے کرنے سمیت نیٹو قافلوں کی پاکستان کے راستے بغیر کسی تعطل کے آمد و رفت کو یقینی بنانے کے لیے دو مشترکہ رابطہ دفاتر بھی قائم کیے جائیں گے۔
گزشتہ سال نومبر میں پاک افغان سرحد پر سلالہ چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر احتجاجاً پاکستان نے اپنے زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو ایندھن اور دیگر ساز و سامان کی ترسیل بند کر دی تھی۔ تقریباً سات ماہ کی بندش کے بعد جولائی کے اوائل میں سپلائی لائنز کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اُدھر بلوچستان میں چمن کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد لے جانے والے ٹرکوں کی آمد و رفت جاری ہے لیکن بظاہر سلامتی کے خدشات کی وجہ سے وہاں بھی ان کی تعداد تیزی سے کم ہوئی ہے۔
نیٹو افواج کے لیے رسد لے جانے والے ایک قافلے پر 24 جولائی کو خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں دن دھاڑے شدت پسندوں نے حملہ کرکے ایک ڈرائیور کو ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد سلامتی کے خدشات کے باعث آمد و رفت کا یہ سلسلہ رک گیا تھا۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ہفتہ کو سامان سے لدے ٹرکوں کی روانگی کے موقع پر اضافی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ خیبر ایجنسی میں تعینات حکام کے مطابق مجموعی طور پر 12 ٹرک طورخم بارڈر کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے۔
سات ماہ سے زائد عرصے تک کی بندش کے بعد حکومتِ پاکستان نے جولائی کے پہلے ہفتے میں نیٹو کے ٹرکوں کے لیے چمن اور طورخم کی سرحد دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
رسد لے جانے والے ٹرکوں کی مالکان کی ایک نمائندہ تنظیم کے عہدیدارحکومت سے قافلے میں شامل ٹرکوں کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ نے گزشتہ ہفتے نیٹو سپلائی لائنز سے متعلق مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے تحت پاکستان اپنی سر زمین کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد کی ترسیل پر راہداری ٹیکس وصول نہیں کرے گا اور افغانستان سے 2014ء کے اختتام پر غیر ملکی افواج کے انخلا کے ایک سال بعد تک یہ معاہدہ قابل عمل ہو گا۔
معاہدے کے تحت اختلافی امور کو طے کرنے سمیت نیٹو قافلوں کی پاکستان کے راستے بغیر کسی تعطل کے آمد و رفت کو یقینی بنانے کے لیے دو مشترکہ رابطہ دفاتر بھی قائم کیے جائیں گے۔
گزشتہ سال نومبر میں پاک افغان سرحد پر سلالہ چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر احتجاجاً پاکستان نے اپنے زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو ایندھن اور دیگر ساز و سامان کی ترسیل بند کر دی تھی۔ تقریباً سات ماہ کی بندش کے بعد جولائی کے اوائل میں سپلائی لائنز کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اُدھر بلوچستان میں چمن کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد لے جانے والے ٹرکوں کی آمد و رفت جاری ہے لیکن بظاہر سلامتی کے خدشات کی وجہ سے وہاں بھی ان کی تعداد تیزی سے کم ہوئی ہے۔