امریکہ نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کا فیصلہ اب پاکستان کی سیاسی قیادت کو کرنا ہے کیونکہ تکنیکی تفصیلات طے کرنے والی امریکی ٹیم اپنا کام مکمل کرنے کے بعد وطن واپس چلی گئی ہے۔
امریکی سفیر کیمرون منٹر نے بدھ کو مظفر آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو کو رسد کی راہ داری دوبارہ کھولنے کے لیے مجوزہ سمجھوتے کے ہر پہلو پر بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔
’’اب ہمیں اس ضمن میں پاکستان کی جانب سے سیاسی فیصلے کا انتظار ہے۔ ہم معاہدے کے حوالے سے پُر امید ہیں اور پاکستان میں حکام بھی یہی چاہتے ہیں اس لیے ہم سب کو بے چینی سے اس لمحے کا انتظار ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اُن دوست ملکوں کی جانب سے بھی مذاکرات کر رہا ہے جو پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
امریکی سفیر نے کہا کہ انھیں اُمید ہے کہ سپلائی لائنز جلد کھل جائیں گی تاکہ امریکہ اور پاکستان اپنے مشترکہ مقصد کو آگے بڑھا سکیں۔ اُنھوں نے راہ داری بحال ہونے کے بارے میں کسی حتمی تاریخ پر خیال آرائی سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فیصلہ پاکستان کو کرنا ہے۔
کیمرون منٹر نے کہا کہ سب چاہتے ہیں کہ اختلافات کو پس پشت ڈال کر مستقبل کے تعلقات کے بارے میں سوچا جائے تاکہ قلیل اور طویل المدت منصوبوں پر مل کر پیش رفت کی جا سکے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان عوامی سطح پر رابطے، کاروباری تعلقات، تعلیمی اور امداد کے شعبے میں ایک مضبوط تعاون قائم ہے۔
’’ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی ماحول کو مثبت بنایا جائے تاکہ دیگر شعبوں میں تعاون جاری رکھنے میں مدد ملے۔‘‘
امریکی سفیر کے بیان سے چند گھنٹوں قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرس فو راسموسن نے دورہِ آسٹریلیا کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ پُر امید ہیں کہ نیٹو سپلائی لائنز ’’مستقبل قریب‘‘ میں کھول دی جائیں گی۔ مگر اُنھوں نے کہا کہ اتحادی افواج محض اس راہ داری پر انحصار نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کے بدلے امریکہ سے پیسے بٹورنے کی بحث کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد میں بدھ کو ڈنمارک کے ہم منصب ولی سونڈل کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی شرائط ڈھکی چھپی نہیں۔
’’امریکہ اُن ضروریات سے بخوبی آگاہ ہے جو ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنے اور فیصلے کو ممکن بنائیں گی۔‘‘
واضح رہے کہ امریکی رہنما یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان مستقبل میں اس کی سرزمین سے گزرنے والے نیٹو قافلوں پر حد سے زیادہ یعنی فی کنٹینر پانچ ہزار ڈالر کا تقاضا کر رہا ہے جب کہ پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ اڑھائی ہزار ڈالر فی کنٹیر محصولات چاہتے ہیں اور اس طرح حاصل ہونے والی رقم قومی شاہراہوں کی مرمت پر خرچ کی جائے گی جنھیں گزشتہ 10 سالوں کے دوران نیٹو کے قافلوں کی آمد و رفت سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔