سرکاری عہدیداروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ سالوں کے دوران پاکستان میں زچکی کے دوران ماوں کی ہلاکت کی شرح کو اگرچے کسی حد تک کم کر لیا گیا ہے لیکن نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہر ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے کم از کم پچاس ہلاک ہو جاتے ہیں جس کی وجہ مناسب طبی سہولتوں کے علاوہ تربیت یافتہ دائیوں کی عدم دستیابی ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں وفاقی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسد حفیظ نے کہا کہ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی کرنا اس لئے ایک کڑا چیلنج ہے کیوں کہ نومولود بچوں کو درکار دیکھ بھال کے لیے ہسپتالوں میں ”نیو نیٹکل یونٹس“ قائم کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری اور وسائل درکار ہیں ۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حاملہ ماوں کو زچی کے دوران تربیت یافتہ دائیوں کی دستیابی سے بھی بہت حد تک اس مسئلے کا حل ممکن ہے اور ان کے مطابق اسی لیے وفاقی حکومت تقریبا اٹھارہ ہزار دائیوں کو تربیت دے کر پاکستان بھر کے دیہی علاقوں میں تعینات کرنے کے منصوبے پر کام کرہی ہے۔
برطانوی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق اس وقت پاکستان میں صرف انتالیس فیصد بچوں کی پیدئش کے لیے تربیت یافتہ دائیاں موجود ہیں۔
ڈاکٹر اسد نے بتایا کہ زچہ و بچہ کی صحت کے پروگرام کے تحت دور دراز علاقوں کے ہسپتالوں میں صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانا اور عوام میں احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی پیدا کرنا بھی شامل ہے۔
انھوں نے بتایا کہ تقریباً چھے ہزار دائیوں کو تربیت دے کر پہلے ہی مختلف علاقوں میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت پاکستان سال 2015ء تک زچہ و بچہ کی شرح اموات کے علاوہ ایڈز ، تب دق اور ملیریا جیسی بیماریوں کی شرح میں کمی کا بھی پابند ہے۔
ماہرین کے مطابق ماوں کی شرح اموات اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں کمی کے سلسلے میں اگرچے مناسب پیش رفت ہو رہی ہے لکین نوزائیدہ بچوں کی اموات کو روکنے کے لئے عالمی تنظیم کو مقرر کردہ حدف حاصل ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا۔