قبائلی علاقوں سے ملحقہ پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر مہتاب احمد خان کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی میں سکیورٹی فورسز کو اچھی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اور وہاں شہری ہلاکتوں سے متعلق آنے والی خبریں ان کے بقول کچھ اتنی درست نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو گورنر نے فوجی آپریش میں ہونے والی کامیابیوں کا کچھ یوں تذکرہ کیا۔
"بڑی کامیابی یہ ہے کہ عسکریت پسنوں کا وہاں جو بنیادی ڈھانچہ تھا یہ ان کا اقتصادی مرکز بھی تھا یہاں کارروباری سرگرمیاں تھیں تو وہ سب بھی تباہ کر دی گئی ہیں تو یہ قابل ذکر کامیابیاں ہیں۔"
پاکستانی فوج نے 15 جون کو شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی جس میں حکام کے بقول اب تک 500 سے زائد جنگجو ہلاک اور ان کے متعدد ٹھکانے تباہ کر دیے گئے ہیں۔
گورنر مہتاب احمد خان کا کہنا تھا کہ بہت سے علاقوں میں کارروائی کر کے شدت پسندوں سے پاک کر دیا گیا ہے اور اب اگلے مرحلے میں ایجنسی کے مشکل ترین مقامات میں کارروائی شروع کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن مہینوں نہیں بلکہ ہفتوں پر ہی محیط ہو گا۔
بعض ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں آ رہی تھیں کہ فوجی کارروائی کے دوران شمالی وزیرستان میں شہری ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ لیکن گورنر خیبرپختونخواہ کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ وہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں لہذا 'کولیٹرل ڈیمیج' کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
"بڑی تعداد کا وہاں سے انخلا ہوا ہے، کچھ آبادی وہاں رہ گئی ہے جو اپنی رضامندی سے وہاں رہ رہی ہے کولیٹرل ڈیمیج میرے خیال میں ہو سکتا ہے لیکن اس کا امکان نہیں کیونکہ آبادی والے علاقوں سے لوگ منتقل ہو گئے تھے اور جو اپنی رضامندی سے وہاں رہ رہے ہیں اور اگر انھوں نے عسکریت پسندوں کو پناہ دے رکھی ہے تو پھر کارروائی میں ان کا اپنا ہی نقصان ہو گا۔"
شمالی وزیرستان سے لگ بھگ دس لاکھ لوگ نقل مکانی کر کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں عارضی طور پر رہ رہے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے مکمل خاتمے تک فوجی آپریشن جاری رہے گا اور دہشت گردوں کو پورے ملک میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا خاتمہ کیا جائے گا۔