پاکستان میں نرسوں کا عالمی دن جمعرات کو اس تشویش کے ساتھ منایا گیا کہ شعبہ صحت کے لئے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے اس پیشے سے جڑے افراد کی کمی مریضوں کے علاج کو متاثر کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے باتیں کرتے ہوئے نرسنگ کے امور پر وفاقی وزارت صحت کی مشیر سٹیلر نذیر نے بتایا کہ سترہ کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پاکستان نرسنگ کونسل سے رجسٹرڈ نرسوں کی موجودہ تعداد صرف 54ہزار 987 ہے جو نہایت کم ہے۔
ان کا کہا تھا کہ نرسوں کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ دائیوں اور خواتین ہیلتھ ورکز کی کمی کو پورا کرنا بھی بہت ضروری ہے جس سے زچہ و بچہ کی تشویشناک حد تک زیادہ شرح اموات کم کی جا سکتی ہے۔
’’خلا کو پر کر کے رسائی اور توازن میں اضافے‘‘ کے عنوان سے منائے جانے والے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں ایک کانفرنس ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ عوام کو صحت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی میں نرسوں کا کردار نہایت اہم ہے اور معاشرے کو اس کا احساس کرتے ہوئے نرسنگ کے شعبے کوغیر اہم نہیں سمجھنا چاہیے۔
دارالحکومت کے ایک بڑے نجی ہسپتال کی نرسنگ ڈائریکٹر یاسمین ساگو نے کہ چھ مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے کم ازم کم ایک نرس کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ تیس مریضوں کے لئے صرف ایک نرس دستیاب ہے۔
انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ معاشرے کے اندر روایتی طور پر نرسنگ کے شعبے کو جائز وقارنہیں دیا جا رہا اور اسے ایک معمولی نوعیت کا کام تصور کیا جاتا ہے۔
’’اس وقت نرسوں کو ان کی قابلیت کی بنیاد پر سولہ سے سترہ گریڈ تک میں نوکریاں مل سکتی ہیں لیکن صرف معاشرتی رویے کی وجہ سے عورتیں اور مرد اس طرف نہیں آ رہے‘‘۔
یاسمین ساگو کی رائے میں پاکستان میں نرسوں کی موجودہ کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر سال تقریباً تین ہزار افراد اس شعبے میں بہتر مستقبل کی غرض سے بیرون ملک چلے جاتے ہیں ۔
وفاقی سیکرٹری برائے ترقی خواتین بتول قریشی کا کہنا ہے کہ صرف نرسنگ ہی نہیں بلکہ ہر شعبے میں خواتین کی شراکت میں اضافہ عورتوں کو بااختیار بنانے کی حکومتی حکمت عملی کا اہم جز ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ نرسنگ کے عملے کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں اس اہم شعبے کو کسی بھی طرح کم درجہ کا تصور نا کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اسے اپنائیں۔