کراچی میں وفاق کے زیرِ انتظام چلنے والے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کو صوبے کے ماتحت کیے جانے کے فیصلے کے خلاف دونوں اداروں کے عملے نے چار روز سے مکمل ہڑتال کر رکھی ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
اگرچہ یہ احتجاج گذشتہ اٹھارہ روز سے جاری ہے تاہم ابتدا میں صرف شعبہ بیرونی مریضان یعنی او پی ڈی کو صبح کے اوقات میں دو گھنٹے کے لیے بند رکھا گیا لیکن کسی بھی طرف سے شنوائی نہ ہونے پر ڈاکٹروں سمیت ہسپتال کے تمام عملے نے مکمل ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد صرف ایمرجنسی وارڈ کو کھلا رکھا گیا ہے اور شعبہ بیرونی مریضان، آپریشن تھیٹروں، لیبارٹریاں ، الٹراساوٴنڈ سمیت تمام صحت کی سہولیات معطل ہیں۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت وزارتِ صحت سمیت کئی وزارتیں صوبوں کو منتقل کیے جانے کا عمل جاری ہے ۔ صحت کا محکمہ صوبے کو منتقل کیے جانے کے بعد وفاق کے زیر ِ انتظام چلنے والے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر اور این آئی سی ایچ بھی صوبے کے ماتحت ہوجائے گا۔
دونوں ہسپتالوں کی مشترکہ ایکشن کمیٹی نے اس منتقلی کو روکنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔
مشترکہ ایکشن کمیٹی کے وائس چیرمین ڈاکٹر جاوید جمالی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جناح صرف ایک ہسپتال نہیں بلکہ ایک مکمل درس گاہ ہے جہاں طب کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔”یہاں پورے پاکستان سے طالب علم پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے آتے ہیں ۔ اگر اسے صوبہ کے ماتحت کردیا گیا تو دوسرے صوبوں سے لوگ نہیں آسکیں گے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ اسے یونی ورسٹی کا درجہ دے دیں یا خودمختار ادارہ بنادیں مگر یہ وفاق کے ہی ماتحت رہے۔ جیسا کہ لاہور میں شیخ زیدپوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کو وفاق میں ہی رکھ کر کابینہ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ “
ڈاکٹر جاوید جمالی نے بتایا کہ کراچی میں جناح واحد ادارہ ہے جو وفاق کے 55 ہزار ملازمین کو علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ”صوبے والے کہتے ہیں کہ ہم وفاق کے ملازمین نہیں لیں گے صرف صوبہ کے ملازمین کو یہاں سے علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔ ایسے میں وفاق کے ملازمین کا کیا ہوگا۔“
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ پورے ملک میں طبی سہولیات اور تعلیم فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔یہاں روزانہ 10 ہزار کے قریب افراد کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے علاج کے لیے آتے ہیں ۔ لیکن ادارے کے مطابق ہڑتال کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر تین چار سو کے قریب رہ گئی ہے ۔
جناح ہسپتال کے احاطے میں پریشان حال بیٹھے جیکب آباد سے آئے ایک خاندان کے بتا یا کہ وہ اپنی بیٹی کو لے کر آئے ہیں کیوں کہ گرنے سے اس کا پیر متاثر ہوگیا ہے۔” لیکن یہاں سب کچھ بند ہے اس لیے ایکسرے نہیں ہو پارہا۔ اتنے پیسے نہیں کہ کہیں اور جائیں ۔یہاں بیٹھ کر ہرتال ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔“
ادھر جمعرات کوڈاکٹروں سمیت دونوں ہسپتالوں کے مکمل عملے نے جناح کے باہر احتجاجی دھرنا بھی دیا۔ ڈاکٹر جمالی نے بتایا کہ جمعرات کو اسلام آباد میں اس حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد کیا جارہا ہے جس میں ان اداروں کے مستقبل کا فیصلہ متوقع ہے ۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جب تک اسے صوبے کو دیے جانے کا فیصلہ واپس نہیں ہوتا ان کی ہڑتال جاری رہے گی۔