پاکستان میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے لیے دوبارہ کوششیں شروع کردی ہیں جب کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے نیب آڑڈیننس میں ترامیم کا ابتدائی مسودہ بھی حکومت کو دے دیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترمیم کے معاملے پر 24 رکنی پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کے قیام کی منظوری بھی دے دی ہے۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کمیٹی کے چیئرمین نامزد کئے گئے ہیں جب کہ وفاقی وزرا پرویز خٹک، اسد عمر، شفقت محمود، سینیٹر شبلی فراز، شیریں مزاری اور وزیر مملکت علی محمد خان حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر ظہیر الدین، بابر اعوان اور مرزا شہزاد اکبر بھی کمیٹی میں شامل ہیں جب کہ حکومتی اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ ملک محمد عامر ڈوگر، سینیٹر ڈاکٹر فروغ نسیم، سینیٹر انوار الحق کاکڑ اور غوث بخش خان مہر بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔
اپوزیشن کی کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، احسن اقبال چوہدری اور سینیٹر محمد جاوید عباسی کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر، سینیٹر شیری رحمٰن، سینیٹر فاروق نائیک جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی شاہدہ اختر علی کمیٹی میں شامل ہیں۔
گزشتہ روز کمیٹی کے اجلاس کے بعد کمیٹی سربراہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نیب اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے معاملات پر گفتگو کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے اراکین ساتھ مل بیٹھے ہیں۔
اُن کے بقول اپوزیشن سے مل بیٹھ کر قانونی اُمور پر گفتگو کی اور ان کا نکتہ نظر جان کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ طے پایا ہے کہ چند روز میں نیب کا مجوزہ ڈرافٹ اور ایف اے ٹی ایف قانون کے مسودے اپوزیشن اراکین کو پیش کردیں گے، نیب قانون پر ہمارا ایک نکتہ نظر جبکہ اپوزیشن کا اپنا نکتہ نظر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کہتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کو احتساب کے نئے نظام پر بیٹھ کر بات کرنا ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ احتساب کا ادارہ (ن) لیگ کے دور میں اپوزیشن کو دبانے کے لیے قائم کیا گیا، مشرف دورمیں اسے نیب کا نام دیا گیا۔
فواد چوہدری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے دور میں بھی یہ اسی طرح چلتا رہا، نیب میں چیئرمین سے لے کر تمام تقرریاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے نیب سے متعلق فیصلے سے قانونی اعتبار سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ نیب سے حکومت بھی خوش نہیں تھی، نواز شریف اور مریم نواز سمیت باقی اہم کیسز حتمی نتائج تک نہیں پہنچ رہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ نیب نے خود کو اتنا بڑا کر لیا کہ انہیں خود سمجھ نہیں آرہا کہ اس سے کیسے نکلے، لہذٰا نئے نظام کی ضرورت ہے۔
اُن کے بقول نظامِ انصاف سے وزیراعظم سمیت کوئی بھی مطمئن نہیں ہے، کمزور کیس بنانے اور کمزور پراسیکیوشن کی وجہ سے کیسوں کا نتیجہ نہیں نکلتا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہو گیا نیب احتساب نہیں سیاسی انجینئرنگ کررہا ہے، عدالتیں مسلسل نیب قوانین میں خامیوں اور طریقہ کار پر سوالات اٹھاتی رہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں ترامیم کے لیے 32 صفحات پر مشتمل مسودہ حکومت کو دے دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نیب کا اطلاق پبلک ہولڈرز پر ہونا چاہیے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ "ہم نے حکومت کو بھی کہا ہے کہ اپنا مسودہ لے آئیں اس پر بات کرتے ہیں، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے نیب سے متعلق ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔"
پیراگون سٹی ریفرنس میں سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کیس کو انسانیت کی تذلیل کی بدترین مثال قرار دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ نیب نہ تو کمپنی سے خواجہ برادران کا تعلق ثابت کرسکا اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا کہ نیب نے اس کیس میں مداخلت کیوں کی؟
گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں لاکھڑا پاور پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں کے نیب کے مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے قومی احتساب بیورو کی کارکردگی پر شدید تنقید کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ نیب کے مقدمات میں تاخیر کا ذمہ دار بھی خود نیب ہی ہے، اس کے تفتیشی افسران میں اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں ہے۔
SEE ALSO: مفاہمت کے 'بادشاہ' کیا اب مزاحمت کے لیے پرتول رہے ہیں؟
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ نیب کو انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، حکومت ہمارے ساتھ نیب قانون میں تبدیلی پراتفاق کرتی ہے بعد میں مکر جاتی ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ چیئرمین نیب کو مستعفیٰ ہونا چاہیے، یہ انتقام اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہو چکا کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کا ادارہ ہے۔"
جمعے کو ایک تقریب سے خطاب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ نیب قوانین میں ترامیم کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن حکومت احتساب پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ بدعنوان عناصر کے خلاف بلاتفریق احتساب کا عمل جاری رہے گا، اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں پر بدعنوانی کے سنجیدہ کیسز ہیں۔ بلاول بھٹو کا نیب کو بند کرنے اور چیئرمین نیب کو گھر جانے کے حوالے سے بیان مضحکہ خیز ہے۔
سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ آئین کے آرٹیکل 198 کے تحت ہے۔ تفصیلی فیصلے کے پیرا گراف نمبر 65، 66، 67، 68 میں معزز ججز نے جو لکھا ہے وہ نیب کے خلاف چارج شیٹ ہے۔
عمران شفیق کے بقول پہلے نیب پر یہ تنقید ہوتی تھی کہ وہ یکطرفہ احتساب کرتی ہے۔ یا یہ مطالبہ ہوتا تھا کہ پراسیکیوشن ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن اب یہ مطالبات زور پکڑ رہے ہیں کہ چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر نیب اور تمام بڑے عہدے دار خود ہی نیب چھوڑ کر چلے جائیں کیوں کہ اب اس کے قیام کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا۔
اُن کے بقول ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نیب کے قیام پر سوالات اُٹھا دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ ادارہ آمر کے دور میں لوگوں کو دبانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ عمران شفیق کے بقول ججز نے یہ بھی لکھا ہے کہ ادارہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔
نیب کا اپنے اُوپر لگنے والے الزامات پر یہ موقف رہا ہے کہ نیب سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر میرٹ پر کارروائی کرتا ہے۔ لہذٰا یہ تاثر درست نہیں کہ صرف اپوزیشن جماعتوں کے خلاف ہی کیسز قائم کیے جاتے ہیں۔