محمود خان اچکزئی کے مطالبے کو ایوان میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے مجموعی طور سراہا تو گیا مگر یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ جمہوریت کو کس سے خطرہ لاحق ہیں۔
اسلام آباد —
بلوچستان کی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی کے نو منتخب اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کا عہد کریں کہ وہ کسی غیر آئینی عمل کی حمایت نہیں کریں گے اور نا ہی سیاسی قیادت فوجی آمر کے کسی حامی کو اپنی جماعت میں شامل کرے۔
پارلیمان کے ایوان زیریں میں پیر کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات سے پہلے میاں نواز شریف کے ایک اتحادی محمود اچکزئی نے ایوان میں کھڑے ہو کر کہا کہ اس عہد کے بغیر جمہوریت کا استحکام ممکن نہیں۔
’’اگر ہم نے اپنے حلف کے لفظوں کو معنی خیز بنانا ہے تو اس کا طریقہ کیا ہو گا۔ اگر کل کوئی جنرل چل پڑے (حکومت کا تحتہ الٹنے کے لیے تو)۔ یہ اسمبلی بھری پڑی ہے ان افراد سے جنھوں نے سابق آمر کا ساتھ دیا اور وہ کسی نا کسی طرح سیاسی جماعتوں میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔ ہم مزاق بنا رہے ہیں اپنے پاکستان اور اس کے آئین کا۔‘‘
محمود خان اچکزئی کے مطالبے کو ایوان میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے مجموعی طور سراہا تو گیا مگر یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ جمہوریت کو کس سے خطرہ لاحق ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ماضی کو فراموش کر کے نیا عہد کرنا درست عمل ہوگا۔
’’ہم سب کو اپنے ماضی سے علیحدگی اختیار کرنا ہو گی۔ ماضی میں جو ہو چکا ہو چکا۔ یہ نئی ابتداء ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمارے ووٹر اسے سراہیں گے۔‘‘
نواز شریف کے قریبی ساتھی چوہدری نثار نے بھی سیاسی دانوں کو ’’خود اپنے کردار کا تجزیہ‘‘ کرنے کو کہا۔
’’اگر ہم کہتے ہیں کہ کوئی جرنیل یا جج آئین کی پاسداری کرے تو پہلے ہمیں خود اس کا پاسدار بننا پڑے گا۔۔۔۔ جمہوریت آپ کو بھیک میں نہیں ملے گی، اعلانات اور تقاریر سے نہیں ملے گی۔ حکومت وقت کو اپنی کارکردگی دیکھانا ہوگی۔‘‘
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیرمین شاہ محمود قریشی نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے مستقبل کے حوالے سے ایوان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
’’ہم نے آئین کی پاسداری کی بات کی۔ ہم نے ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے جو آئین کو توڑتے رہے ہیں پھر میرا اس ایوان سے سوال ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہے جس میں آئین کو سلب کرنے، توڑنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ ایک تازہ مثال ہے اور اگر یہ روایتی آئین اور ایوان نہیں ہے تو پھر اس کی اس بارے مٰیں کیا رائے ہے۔‘‘
عدالت عظمیٰ میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف 2007ء میں آئین توڑنے اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں اور ملک کے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی کارروائی شروع کرنے کا حق صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
11 مئی کے انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے کے بعد میاں نواز شریف کی جماعت حکومت بنانے جارہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق عظیم وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ابھی تک سابق صدر کے خلاف غداری کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
بعض مبصرین کا نواز شریف کی آنے والی حکومت کے لیے اس بارے میں فیصلے کو ’’مشکل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق نواز شریف کی جانب سے سابق فوجی سربراہ کے خلاف کارروائی کا حکم حکومت اور فوج کے درمیان گشیدگی کاسبب بن سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی کو سول اور فوجی تعلقات یا آئین کے آرٹیکل 6 تک محدود کرنا درست نا ہوگا۔
’’جب تک جمہوریت کو عوام کی دہلیز تک نہیں لے کر جائیں گے۔ مقامی حکومتوں کا آزاد، خود مختار، خود کار، خود کفیل نظام قائم نہیں ہوتا ہم آئین اور جمہوریت کی بالادستی کے کتنے دعوئے کریں میری نظر میں ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔‘‘
جمیعت علماء اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ ایوان کو یہ ضرور طے کرنا ہوگا کہ کیا وہ مستقبل میں طالع آزماؤں کا راستہ روکنے اور جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کے لیے آرٹیکل 6 کے تحت موثر، فعال اور سخت قانون سازی کے لیے وہ تیار ہیں۔
سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے مخدوم امین فہیم نے ایوان کو بتایا کہ ان کی جماعت ماضی کی طرح ہر صورت غیر آئینی عمل کی مزاحمت کرے گی۔
پارلیمان کے ایوان زیریں میں پیر کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات سے پہلے میاں نواز شریف کے ایک اتحادی محمود اچکزئی نے ایوان میں کھڑے ہو کر کہا کہ اس عہد کے بغیر جمہوریت کا استحکام ممکن نہیں۔
’’اگر ہم نے اپنے حلف کے لفظوں کو معنی خیز بنانا ہے تو اس کا طریقہ کیا ہو گا۔ اگر کل کوئی جنرل چل پڑے (حکومت کا تحتہ الٹنے کے لیے تو)۔ یہ اسمبلی بھری پڑی ہے ان افراد سے جنھوں نے سابق آمر کا ساتھ دیا اور وہ کسی نا کسی طرح سیاسی جماعتوں میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔ ہم مزاق بنا رہے ہیں اپنے پاکستان اور اس کے آئین کا۔‘‘
محمود خان اچکزئی کے مطالبے کو ایوان میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے مجموعی طور سراہا تو گیا مگر یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ جمہوریت کو کس سے خطرہ لاحق ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ماضی کو فراموش کر کے نیا عہد کرنا درست عمل ہوگا۔
’’ہم سب کو اپنے ماضی سے علیحدگی اختیار کرنا ہو گی۔ ماضی میں جو ہو چکا ہو چکا۔ یہ نئی ابتداء ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمارے ووٹر اسے سراہیں گے۔‘‘
نواز شریف کے قریبی ساتھی چوہدری نثار نے بھی سیاسی دانوں کو ’’خود اپنے کردار کا تجزیہ‘‘ کرنے کو کہا۔
’’اگر ہم کہتے ہیں کہ کوئی جرنیل یا جج آئین کی پاسداری کرے تو پہلے ہمیں خود اس کا پاسدار بننا پڑے گا۔۔۔۔ جمہوریت آپ کو بھیک میں نہیں ملے گی، اعلانات اور تقاریر سے نہیں ملے گی۔ حکومت وقت کو اپنی کارکردگی دیکھانا ہوگی۔‘‘
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیرمین شاہ محمود قریشی نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے مستقبل کے حوالے سے ایوان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
’’ہم نے آئین کی پاسداری کی بات کی۔ ہم نے ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے جو آئین کو توڑتے رہے ہیں پھر میرا اس ایوان سے سوال ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہے جس میں آئین کو سلب کرنے، توڑنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ ایک تازہ مثال ہے اور اگر یہ روایتی آئین اور ایوان نہیں ہے تو پھر اس کی اس بارے مٰیں کیا رائے ہے۔‘‘
عدالت عظمیٰ میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف 2007ء میں آئین توڑنے اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں اور ملک کے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی کارروائی شروع کرنے کا حق صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
11 مئی کے انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے کے بعد میاں نواز شریف کی جماعت حکومت بنانے جارہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق عظیم وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ابھی تک سابق صدر کے خلاف غداری کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
بعض مبصرین کا نواز شریف کی آنے والی حکومت کے لیے اس بارے میں فیصلے کو ’’مشکل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق نواز شریف کی جانب سے سابق فوجی سربراہ کے خلاف کارروائی کا حکم حکومت اور فوج کے درمیان گشیدگی کاسبب بن سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی کو سول اور فوجی تعلقات یا آئین کے آرٹیکل 6 تک محدود کرنا درست نا ہوگا۔
’’جب تک جمہوریت کو عوام کی دہلیز تک نہیں لے کر جائیں گے۔ مقامی حکومتوں کا آزاد، خود مختار، خود کار، خود کفیل نظام قائم نہیں ہوتا ہم آئین اور جمہوریت کی بالادستی کے کتنے دعوئے کریں میری نظر میں ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔‘‘
جمیعت علماء اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ ایوان کو یہ ضرور طے کرنا ہوگا کہ کیا وہ مستقبل میں طالع آزماؤں کا راستہ روکنے اور جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کے لیے آرٹیکل 6 کے تحت موثر، فعال اور سخت قانون سازی کے لیے وہ تیار ہیں۔
سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے مخدوم امین فہیم نے ایوان کو بتایا کہ ان کی جماعت ماضی کی طرح ہر صورت غیر آئینی عمل کی مزاحمت کرے گی۔